محمد رضوان

ہمت، لگن،صبر اور یقین کا دوسرا نام محمد رضوان

ویسے تو یکم جون 1992 کو پشاور میں پیدا ہونے والے سپر سٹار کا نام محمد رضوان ہے لیکن اصل میں محمد رضوان نام ہے ہمت، محنت،صبر، لگن اور یقین کا، جس طرح کہا جاتا تھا کہ سرفراز کبھی دھوکا نہیں دیگا اب اگر یہ کہا جائے کہ محمد رضوان کبھی دھوکا نہیں دیگا تو غلط نہ ہوگا،

ہمت، محنت، لگن، صبر اور یقین نے ہی محمد رضوان کو گمنامی کی جانب جاتے جاتے شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا، اس دور میں جو لوگ کسی بھی شعبے سے منسلک ہیں مایوسی کا شکار ہیں، پریشانیوں میں گھرے ہوئے ہیں، ڈپریشن کا شکار ہیں، لوگوں کی تنقید سے تنگ ہیں تو ان کیلئے محمد رضوان ایک بہترین رول ماڈل ہے،

اگر اس نوجوان کرکٹر کے کیریئر کے ابتدائی ایام پر نظر ڈالیں تو ان کی جگہ کوئی بھی ہوتا تو شاید ہمت ہارکر، حوصلہ چھوڑ کر ، بے یقینی کا شکار ہو کر کب کا گمنام ہو چکا ہوتا مگر جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا کہ محمد رضوان کا دوسرا نام ہمت اور لگن ہے اور اسی بات نے آج اسے اس مقام پر بیٹھا دیا جہاں وہ کوئی بھی بات کرنے سے پہلے اللہ کا شکر ادا کرتا ہے، عاجزی اختیار کرتا ہے اور آگے بڑھنے کیلئے سازش نہیں محنت کرتا ہے۔

محمد رضوان کو اپنے کیریئر کے آغاز میں بہت مشکلات کا سامنا رہا ڈومیسٹک کرکٹ میں شاندار کارکردگی کے باوجود سلیکٹرز انہیں نظر انداز کرتے رہے ، محمد رضوان کو سلیکٹرز نے ٹیم میں صرف اس لئے شامل کیا تھا کہ ٹیم کے فرسٹ جوائس وکٹ کیپر سرفراز احمد جاگتے رہیں اور ریلیکس نہ کریں مگر محمد رضوان کو جب موقع ملا تو ان کے ذہین میں کسی کو جگانا نہیں بلکہ صرف یہ تھا کہ وہ زیادہ سے زیادہ پاکستان کی جانب سے بین الاقوامی کرکٹ کھیلیں ،محمد رضوان جو کیریئر کے آغاز میں ہی اور پھر ڈومیسٹک کرکٹ میں تکنیکی لحاظ سے بہت شاندار وکٹ کیپر تھے ، 2015 کے عالمی کپ کرکٹ ٹورنامنٹ کے بعد جب انہیں ٹیم میں شامل کیا گیا تو اس وقت بھی وکٹ کیپر کی جگہ پر سرفراز احمد پکے تھے ،

مزید پڑھیں:  تیسرا ٹی 20: نیوزی لینڈکا ٹاس جیت کر بولنگ کا فیصلہ

محمد رضوان نے بین الاقوامی کرکٹ کا آغاز شاندار انداز میں کیا اور سری لنکا، بنگلہ دیش، زمبابوے کیخلاف پہلی آٹھ اننگز میں رنز کی اوسط کو 60 تک لے گئے تاہم جب مقابلہ بڑی ٹیموں کیساتھ ہوا تو ان کی بیٹنگ کی خامیاں سامنے آنا شروع ہوئیں اور اسی وجہ سے وہ 2016 کے عالمی کپ میں سرفراز کے مقابلے میں قومی ٹیم میں جگہ حاصل نہ کرسکے اس ورلڈ کپ میں ٹیم کی مایوس کن کارکردگی کے بعد سرفراز احمد کو قومی وائٹ بال ٹیم کا کپتان مقرر کردیا گیا جس کے بعد محمد رضوان کی بین الاقوامی کرکٹ میں واپسی مزید تاخیر کا شکار ہو گئی تاہم جب 2019میں سرفراز احمد کو جنوبی افریقہ میں نسلی تعصب پر مبنی جملے کہنے پر پانچ میچوں کی پابندی کا سامنا کرنا پڑا تو یہ وقت تک جب محمد رضوان کی ٹیم میں انٹری ہوئی

دورہ آسڑیلیا کے دوران برسبین ٹیسٹ میں 95 رنز کی اننگز نے ان کے اندر موجود صلاحیتوں کا اجاگر کیا تاہم یہ دورہ انگلینڈ تھا جس کے دوران محمد رضوان نے یکے بعد دیگر دو نصف سنچریاں سکور کیں وکٹوں کے پیچھے پھرتی اور مہارت کا مظاہرہ کیا جس کو دیکھ کر یقین ہو گیا کہ پاکستان کی وکٹ کیپر پلس بلے باز کی پوزیشن کو اب آنے والے ایک طویل عرصے تک کوئی خطرہ نہیں ہے، اس شاندار کارکردگی نے محمد رضوان جس کا ٹیم میں جگہ بنانا مشکل تھا کو ٹیم کے نائب کپتان کے عہدے پر بیٹھا دیا ، محمد رضوان کی سب سے بڑی خوبی ٹاپ آرڈر میں رنز بنانے کا تسلسل ہے اور یہی چیز قومی کرکٹ ٹیم کی ضرورت تھی اس وقت محمد رضوان اپنے کیریئر کے عروج پر ہیں ،

مزید پڑھیں:  تیسرا ٹی 20: نیوزی لینڈکا ٹاس جیت کر بولنگ کا فیصلہ

محمد رضوان اب تک پاکستان کی جانب سے 22 ٹیسٹ کی 33 اننگز میں سات مرتبہ ناٹ آئوٹ رہتے ہوئے 42.76 کی اوسط سے 1112 رنز سکور کرچکے ہیں جس میں دو سنچریاں اور سات نصف سنچریاں شامل ہیں ٹیسٹ میں ان کا بہترین سکور 115 رنز ناٹ آئوٹ ہے، محمد رضوان نے اب تک کھیلے گئے 44 ایک روزہ میچوں کی 39 اننگز میں سات مرتبہ ناٹ آئوٹ رہتے ہوئے 28.03 کی اوسط سے 897 رنز سکور کئے ہیں جس میں دو سنچریاں اور چار نصف سنچریاں شامل ہیں، ون ڈے میں ان کا بہترین سکور 115 رنز ہے، محمد رضوان نے کھیلے گئے 56 ٹی ٹوئنٹی میچوں کی 45 اننگز میں 50.06 کی اوسط سے 1662 رنز بنائے ہیں جس میں ایک سنچری اور تیرہ نصف سنچریاں شامل ہیں ٹی ٹوئنٹی میں ان کا بہترین سکور 104 رنز ناٹ آئوٹ ہے۔

ایک وقت جب محمد رضوان کا ٹیم میں آنا مشکل تھا لیکن 2021 میں محمد رضوان نے سب کچھ بدل کر رکھ دیا، محمد رضوان گزشتہ سال پی سی بی کی جانب سے موسٹ ویلیوایبل کرکٹر آف دی ایئر قرار پائے، آئی سی سی مینز ٹی ٹوئنٹی کرکٹر آف دی ایئر کا ایوارڈ اپنے نام کیا، محمد رضوان نے سال 2021 کے دوران سب سے زیادہ ٹی ٹوئنٹی رنز بنانے کا اعزاز اپنے نام کیا، 2021میں محمد رضوان ان تین بیٹرز میں شامل تھے جنہوں نے ہر فارمیٹ میں سنچری سکور کی۔