مشرقیات

کوئی ناگزیر نہیں وہ کیا خوب کہا ہے کسی نے کہ ناگزیر انسانوں سے قبرستان اٹے پڑے ہوئے ہیں تاہم اس کے باوجود جو زندہ ہیں وہ خوش فہمی کا شکار رہتے ہیں تب بھی جب وہ اپنی آخری سانسیں شمار کر رہے ہوتے ہیں اور آخری ہچکی لیتے ہوئے بھی شاید ان کی سوج اسی خوشی فہمی کے دھارے پر بہتی ہوئی کہیں ڈوب جاتی ہے۔ بہرحال کوئی زیادہ سے زیادہ سو سال بھی زندہ رہے تو بنا عشق کے گزرے یہ سو سالہ زندگی رائیگاں ہی گزری، یہاں یاد رہے کہ عشق سے مراد کسی انسان کے گرد اپنی ساری خواہشات کا دائرہ بنا کر زندگی گزارنا نہیں ہے بلکہ اس سے وہی مراد ہے جسے ہم ان سطورمیں کسب کمال کہتے رہتے ہیں، ناگزیر کسب کمال یا عاشق حضرات بھی نہیں ہوتے تاہم جب وہ رخصت ہوتے ہیں تو دنیا ان کی کمی محسوس کرتی ہے فضول مشق ستم ایجاد کرکے ناگزیر بنے پھرنے والوں کی طرح نہیں جو ازخود خود کو ناگزیر قرار دیتے ہوئے جاہ ومناصب سے چمٹے رہنے کے بہانے ڈھونڈتے رہتے ہیں،کوئی زیادہ تحقیق کی بات نہیں اپنے ملک کے حالات دیکھ لیں یہ مقابلہ ہو چلا ہے خود کو ناگزیر قرار دینے والوں کے درمیان اور ان کی اس مشق ستم کا نشانہ ہم بڑی بے دردی سے بن رہے ہیں۔ ان کی زندگی پر نظر ڈالیں تو کسب کمال کوئی ایسا نظر نہیں آتا کہ قوم وملک کا بیڑہ پارکرنے کا وہ دعویٰ کر سکیں بس بے بنیاد دعوؤں کے ذریعے ہمیں ماموں یا الو کہہ لیں بنانے میں ان کا کوئی ثانی نہیں ہے اور سچی بات یہ ہے کہ ماموں بننا ہو یا الو، دنیا بھر میں ان دونوں صفات کا کوئی حامل ہم جیسا نہیں ہے۔ اپنے علامہ صاحب کہہ گئے ہیں کہ عشق ہے اصل حیات موت ہے اس پر حرام، مطلب یہ کہ فانی جسم تو مٹی ہوجانا ہے اصل بات یہ ہے کہ آپ نے اپنی زندگی میں اس فانی جسم کو استعمال کرتے ہوئے کیا کارہائے نمایاں انجام دیا ہے کہ آپ کی بعد ازمرگ بھی اعزاز کے ساتھ دفنایا ہی نہ جائے بلکہ یاد بھی رکھا جائے۔ عشق کے عین سے آپ کی حیات کا بعد ازموت کا عنوان لکھا جائے اور پورے یقین سے لوگ کہتے سنے جائیں کہ موت بھی آپ کو نہیں مار سکی، ایک نہیں درجنوں مثالیں ہیں تاریخ میں اس کی، خود علامہ صاحب نے بھی اپنی شاعری میں انہیں پیش کیا ہے، مسجد قرطبہ کی شان میں جو طویل نظم ان کے کلام میں ہے اسے پڑھیں وہ اجنبی سر زمین پر عربوں کی اس لافانی نشانی کو عشق کا کارنامہ سمجھتے ہیں، اسے بنانے والے کب کے مرکھپ گئے مگر اس عشق کی بدولت ان کا نام زندہ جاوید ہے تو بس ثابت ہوا کہ عشق ہے اصل حیات موت ہے اس پر حرام، اب آپ خود کو ناگزیر کبھی سمجھیں تو مکتب عشق کا کوئی سبق ہی سنا دیں کہ ہما شما کا کوئی اعتراض نہ رہے ۔

مزید پڑھیں:  نشستن و گفتن و برخاستن