حقیقت کو نظر انداز کر کے منزل تک نہیں پہنچ سکتے

19جولائی 1981ء کو احمد آباد میل حسب معمول اپنے وقت پر روانہ ہوئی۔ مگر مہسانہ اسٹیشن پر وہ چالیس منٹ لیٹ ہو گئی ۔ ٹرین جب مہسانہ سے آگے بڑھی تو ڈرائیور نے اس کو عام رفتار سے زیادہ تیز دوڑانا شروع کر دیا تاکہ وہ اپنے مقررہ وقت پر احمد آباد پہنچ جائے۔ ٹرین ڈونگروا سے دو کلومیٹر کے فاصلے پر تھی کہ ڈرائیور نے دیکھا کہ آگے کی پٹری میں کچھ فش پلیٹیں غائب ہیں۔ اس نے فوری طور پر بریک لگایا تاکہ ٹرین کو روک کر حادثہ سے بچائے۔ مگر تیزی سے دوڑتی ہوئی ٹرین اچانک بریک لگنے سے بے قابو ہو گئی۔ انجن اور اس کے ساتھ لگی ہوئی 12بوگیاں پٹری سے اچھل پڑیں اور پوری گاڑی اپنی پٹری چھوڑ کر کنارے کے کھڈ میں جا گری ۔ کافی لوگ مر گئے اور بہت سے زخمی ہوئے۔

اس واقعہ میں یہ سبق ہے کہ آپ ایسا نہیں کر سکتے کہ حالات کو نظر انداز کر کے اپنی زندگی کی گاڑی کو تیز دوڑانا شروع کر دیں کیونکہ اس دنیا میں صرف آپ ہی نہیں بلکہ دوسرے بھی ہیں ۔ یہاں صرف آپ برسرعمل نہیں ہیں بلکہ دوسرے بھی برسرعمل ہیں۔ ایسی دنیا میں اسی شخص یا قوم کا سفر کامیاب ہو سکتا ہے جو خارجی حالات کو اچھی طرح سمجھے اور ان کی رعایت کرتے ہوئے اپنی گاڑی کو آگے بڑھائے اگر یہ حکمت نہ برتی جائے تو راستہ میں کوئی بھی غیر موافق واقعہ پیش آ کر ہمارے سارے منصوبہ کو خاک میں ملا دے گا۔

موجودہ زمانہ میں مسلمانوں نے بہت بڑے بڑے اقدامات کیے اور سب ناکام ہوتے چلے گئے ۔ اس ناکامی کی توجیہہ ہر ایک کے پاس صرف ایک ہے : ’’فلاں کی سازش نے ان کے منصوبہ کو ناکام بنا دیا ‘‘ مگر یہ عذر صرف اس بات کا ثبوت ہے کہ مذکورہ اقدام میں حالات کی پوری رعایت شامل نہ تھی۔ خوش فہمی کے تحت اپنی گاڑی دوڑا دی گئی اور اس بات کا اندازہ نہیں کیا گیا کہ آگے کی پٹری پر ایک دشمن موجود ہے جو ’’فش پلیٹ‘‘ نکال کر ہماری گاڑی کو الٹنے کا خفیہ منصوبہ بنائے ہوئے ہے۔ ’’گاڑی‘‘ خواہ مکمل طور پر آپ کی ہو مگر جس ’’سڑک‘‘ پر آپ کو اپنی گاڑی دوڑانی ہے وہ مکمل طور پر آپ کی نہیں۔ یہ حقیقت خواہ کسی کے لیے کتنی ہی تلخ ہو مگر بہرحال وہ ہے اور یہ ممکن نہیں کہ اس کو نظر انداز کر کے کوئی شخص اس دنیا میں کامیاب ہو سکے۔

جو لوگ اس حقیقت کو نظر انداز کر کے اپنی زندگی کی گاڑی دنیا کی سڑک پر دوڑائیں ان کے حصہ میں کبھی منزل نہیں آتی۔ واحد چیز جو اس دنیا میں ان کے لیے مقدر ہے وہ یہ کہ وہ اپنے ہر اقدام کے بعد ناکام ہوں اور پھر کسی نہ کسی ’’سازش‘‘ کا انکشاف کر کے اس کے خلاف فریاد کرتے رہیں۔