پاک بھارت خفیہ رابطے

بھارت اور پاکستان کے درمیان گزشتہ کئی برس سے بظاہر رابطے نہ ہونے کے باجود رابطوں کی خبر ایک بار پھر عام ہے اور دونوں ملکوں کے اخبارات میں اس خفیہ ربط وتعلق کے چرچے عام ہیں ۔پاکستان کے ایک انگریزی اخبار میں سرکاری حکام کے حوالے سے چھپنے والی اس خبر کو بھارت کے اخبارات بہت اہتمام کے ساتھ شائع کررہے ہیں ۔اس خبر کے مطابق پانچ اگست کو بھارت کے یک طرفہ قدم کے بعد جبکہ دونوں ملکوں میں سفارتی سیاسی اور تجارتی تعلقات منقطع ہو کر رہ گئے تھے مگر اس کے باوجود بھارت کی قومی سلامتی کے مشیر اجیت دووال اور پاکستان کے فوجی حکام کے درمیان رابطہ موجود تھا۔کنٹرول لائن پر سیز فائر کی تجویز بھی اسی چینل سے آئی اور پھر اس پر عمل درآمد ہو گیا ۔گویاکہ موجودہ حکومتی منظر بدلنے سے پہلے بھی دونوں ملکوں کے درمیان ایک خاموش اور ملفوف رابطہ قائم تھا۔جبکہ پاکستان کے نمائندے کا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہنا تھا کہ پاکستان کی بھی یہ پالیسی ہے بھارت سمیت ہر ملک سے مذاکرات اور بات چیت جاری رہے۔امریکہ اور برطانیہ دونوں ملکوں پر مذاکرات کے لئے دبائو ڈالے ہوئے ہیں ۔بھارت چاہتا ہے کہ پہلے پاکستان اور بھارت میں غیر مشروط طور پر تجارت بحال ہو ۔پاکستان بھارت سے گندم خریدے۔یہ گندم کم لاگت پر مل سکتی ہے ۔پاکستانی حکام نے بھارت سے گند م خریدنے اور دوسرے معاملات پر فوری بریک تھرو کے امکان کو مسترد کیا ہے۔پاکستان اور بھارت کے درمیان بیک چینل رابطوں کا انداز ہ کنٹرول لائن کے حوالے سے جنگ بندی کے معاہدے کی تجدید سے ہی ہوا تھا ۔اس دوران کئی ایسے اشارے بھی مل رہے تھے کہ کچھ درمیان داروں کی مدد سے دہلی اور اسلام آباد میں رابطہ قائم ہے ۔دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی کے ماحول سے ہٹ کر ایک ”پیس پروسیس ” جاری رہا ۔اسی پیس پروسیس کے نتیجے میں کنٹرول لائن پر تصادم کے واقعات ختم ہوگئے اور بھارت کی طرف سے متعدد مواقع پر تسلیم کیا گیا کہ کنٹرول لائن پر دراندازی کے واقعات بھی نہ ہونے کے برابر رہ گئے۔ کچھ ہی عرصہ پہلے بھارت کے اخبار نویس پروین سوامی نے ایک مضمون میں دونوں ملکوں کے درمیان خفیہ رابطوں کی تصدیق کرتے ہوئے لکھا تھا کہ نجانے آنے والے دنوں جب پاکستان میں آرمی چیف سمیت کئی تبدیلیاں رونما ہوں گی تو اس ”پیس پروسیس ” کا کیا انجام ہوگا ۔اس ساری صورت حال سے جو تصویر اُبھرتی ہے کچھ یوں ہے کہ امریکہ اور برطانیہ جیسے بارسوخ ممالک پاکستان اور بھارت پر کھلے اور باضابطہ مذاکرات کے لئے دبائو ڈالے ہوئے ہیں ۔بھارت پاکستان سے مذاکرات چاہتا ہے مگر کشمیر پر کوئی رعائت نہیں دینا چاہتا ۔ماضی قریب میں سول حکومت اس امریکہ اور برطانیہ کے دبائو کی مزاحمت کر رہی تھی مگر راولپنڈی اس دبائو کو ساتھ لے کر یا اسے مینج کرکے کام چلا رہا تھا ۔اب نئی حکومت اس دبائو کا سامنا کر رہی ہے اور یوں پاکستان کا پوراسسٹم دبائو میں آگیا ہے۔اس ماحول میں امریکہ اور پاکستان کے دبائو کا مطلب پاکستان اور بھارت پر دبائو نہیں بلکہ اس کا مطلب ہے کہ سارادبائو پاکستان پر ہے ۔بھارت کو پاکستان سے معمول کے تعلقات بحال کرنے پر کیا اعتراض ہوسکتا ہے ؟۔تعلقات تو پاکستان کی طرف سے یک طرفہ طور پر منجمد کر دئیے گئے تھے اور تعلقات کی بحالی کے لئے پانچ اگست کے فیصلے کی شرط جیسی سخت گیر اپروچ اپنائی گئی تھی ۔اب پانچ اگست کا فیصلہ ریورس کئے بغیر پاکستان سے تعلقات کی بحالی بھارت کے لئے کسی نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں۔اس سے صاف لگتا ہے کہ مغربی طاقتوں کا سار ا دبائو پاکستان پر ہے ۔بھارت پر کوئی دبائو ہوتا تو کشمیر میں اس کے اثر ات نظر آناشروع ہوتے ۔بھارت کی عدلیہ پانچ اگست کے حوالے سے رٹ پٹیشنز کی فائلوں کی گرد جھاڑ کر کم ازکم سماعت کے لئے انہیں میز پر ہی سجادیتی ۔بھارت کی عدلیہ یاسین ملک سمیت کشمیر کے سیاسی قیدیوں کو کوئی واضح اور نظر آنے والی رعائت ہی دیتے ۔ایسی کسی بات کا امکان نظر نہیں آتا بلکہ کشمیر کے حالات روز بروز بدتر ہوتے جا رہے ہیں۔ایسے میں بھارت سے تجارت کا آغاز تو خوفناک پس قدمی ہی کہلا سکتا ہے ۔پاکستان پر یک طرفہ دبائو نے ہی پاکستان کے سیاسی سسٹم میں ایک ردعمل کو جنم دیا ہے ۔کشمیر پر پاکستان کی تنہائی نے جس مایوسی کو جنم دیا تھا وہ یوکرین پر روسی حملے کی کھلی مذمت کی راہ میں مزاحم بنی ۔یوکرین پر روس نے حملہ کیا تو مغرب انسانی حقوق اور اقتدار اعلیٰ کی پامالی کی دُہائی دیتے ہوئے دنیا سے اس اقدام کی مذمت کی فرمائشیں کیں ۔جس سے پاکستان کے قومی زخم تازہ ہوگئے ۔انہیں کشمیر پر اپنی تنہائیوں او دُہائیوں کے دن یا د آگئے ۔اب بھی لگتا یہی ہے کہ امریکہ کا سار ا دبائو پاکستان پر ہے ۔اس دبائو کا تھوڑا بہت حصہ بھارت پر ہوتا تو اس کے اثرات کشمیر میں نظر آتے ۔گویاکہ دبائو اس لئے نہیں کہ بھارت پانچ اگست کا فیصلہ واپس لے بلکہ دبائو کا محور یہ ہے کہ پاکستان پانچ اگست کے ردعمل میں ہونے والے فیصلے کو یورس کرے۔ کیا ہی عجب تماشا ہے؟

مزید پڑھیں:  ڈیٹا چوری اور نادرا؟