والد کی بددعا نے زندگی بھر کیلئے معذور بنا دیا

یمن سے تعلق رکھنے والا عبداللہ بانعمہ نامی شخص ان دنوں سعودی عرب کے معروف تجارتی شہر جدہ میں مقیم ہے، اس کا دھڑ مکمل طور پر فالج زدہ ہے، صرف اس کا سر اور جسم کا اوپر والا حصہ سلامت ہے، وہ بستر پر پڑا رہتا ہے، اس قدر معذوری کے باوجود آج وہ ایک کامیاب داعی کی حیثیت اختیار کر چکا ہے، وہ معمولی سی بھی حرکت نہیں کر سکتا، سامنے رکھے ہوئے قرآن کریم کا صفحہ بھی الٹ کر نہیں پڑھ سکتا، اس کا بیان ہے کہ اسے باپ کی بددعا لگ گئی ہے، اس کے پاس اس کی ماں بیٹھی رہتی ہے اور اس کی خدمت میں لگی رہتی ہے، والدین کی نافرمانی کے حوالے سے اس کا قصہ عرب ممالک میں بڑا مشہور ہے، مختلف عربی چینلز اس کی تقریریں نشر کرتے رہتے ہیں۔آئیے ہم عبداللہ بانعمہ کا معروف قصہ اور انٹرویو آپ کی نذر کرتے ہیں۔

استاذ عبداللہ بانعمہ آپ کے بارے میں وہ قصہ جس کا تعلق حقوق والدین سے ہے، بڑا معروف ہے۔ کیا آپ اس بارے میں ہمیں کچھ بتلانے کی زحمت فرمائیں گے؟
آپ نے والدین کی نافرمانی کے حوالے سے جو قصہ سننے کی خواہش کا اظہار کیا ہے وہ قدرے طویل ہے مگر اختصار کے ساتھ آپ کو سنائے دیتا ہوں، میں اپنا قصہ بیان کرنے سے پہلے آپ سے کہنا چاہوں گا کہ اللہ تعالیٰ کا مجھ پر انتہائی فضل و کرم اور احسان ہے کہ اس نے مجھے توبہ کرنے کی توفیق بخشی۔ قصہ یہ ہے کہ میں نے برے ساتھیوں کی صحبت اختیار کر لی اور سگریٹ پینا شروع کر دیا، اسٹائل کے ساتھ سگریٹ کے کش لینا میری عادت تھی، والد محترم کو کسی نے میری اس بری عادت کے بارے میں اطلاع دے دی۔ ماں باپ کیلئے بہرحال یہ ایک تکلیف دہ بات ہے کہ ان کی اولاد سگریٹ نوشی کرے یا اس طرح کی دیگر بری عادتوں میں مبتلا ہو، چنانچہ میرے والد فوراً میرے پاس تشریف لائے اور غصے میں پوچھا، میں نے سنا ہے کہ تم سگریٹ پینے لگے ہو،کیا یہ بات سچ ہے؟’’نہیں نہیں، آپ کو یہ جھوٹی خبر کس نے سنا دی؟ میں نے کبھی سگریٹ کو ہاتھ بھی نہیں لگایا۔‘‘

مجھے اس بات کی کوئی پروا نہیں تھی کہ میں اپنے والد کے سامنے جھوٹ بول رہا ہوں، میرے اندر خوف الٰہی کی کمی تھی۔ میں جان بوجھ کر جھوٹ بول گیا، حالانکہ نبی کریمؐ کی حدیث کے مطابق جان بوجھ کر جھوٹ بولنے والا دوزخ میں اپنا ٹھکانہ بناتا ہے۔
’’کیا تم سچ بول رہے ہو کہ واقعی تم سگریٹ نہیں پیتے اور مجھے تمہارے بارے میں جو رپورٹ پہنچی ہے وہ غلط ہے؟‘‘والد نے پوچھا۔ ’’میں بار بار آپ سے کہہ رہا ہوں کہ میں سگریٹ نہیں پیتا، نہیں پیتا، نہیں پیتا پھر بھی آپ مجھ سے یہی سوال کئے جا رہے ہیں،آخر آپ کیا چاہتے ہیں؟
میں نے با آوازِ بلند انہیں ڈانٹ دیا اور کہا کہ میرے کمرے سے نکل جائیے۔
میرے والد نے میرے کمرے سے نکلتے ہوئے بڑے درد سے کہا۔
’’اگر تم سگریٹ پیتے ہو تو اللہ تعالیٰ تمہاری گردن توڑ دے‘‘

یہ میرے والد کی میرے لئے ایک قسم کی بد دعا تھی۔ میں نے ان کی بددعا کی کوئی پرواہ نہیں کی۔ میرے لئے یہ گفتگو ایسی ہی تھی جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ میرے بھائی،آپ مجھے اس حالت میں دیکھ رہے ہیں کہ میں فالج زدہ انسان ہوں مگر کم سے کم زندہ تو ہوں اور راہ ہدات پر آ چکا ہوں۔ مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے زندہ سلامت رکھا، یوں مجھے توبہ کرنے کا موقع مل گیا۔ خدانخواستہ اگر ایسا ہوتا کہ میں اپنے والد کی بددعا کے بعد مر جاتا تو میرا کیا حشر ہوتا؟ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ والدین کی رضا و خوشنودی میں اللہ تعالیٰ کی ناراضی ہے؟کیا یہ صحیح نہیں ہے کہ ماں باپ کے قدموں تلے جنت ہے اور اس کی نافرمانی مول لینے والے پر جہنم واجب ہے؟

میں نے اپنے والد کو اپنی چرب زبانی اور جھوٹے جواب سے قائل کرنے کی کوشش تو کی،بلکہ انہیں ڈانٹ دیا۔مگر میرے والد کو سو فیصد یقین تھا کہ میں سگریٹ پیتا ہوں، یہی وجہ تھی کہ وہ ناراض ہو کر اور مجھے بددعا دے کر میرے کمرے سے چلے گئے، شام ہوئی میں آیا۔کھا پی کر سو گیا۔ صبح ہوئی۔ ہاتھ منہ دھو کر میں اسکول روانہ ہو گیا۔اسکول سے واپسی پر میں نے اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ سوئمنگ پول کا رخ کیا۔ ہمارا معمول تھا کہ ہم چند دوست ہمیشہ سیرو تفریح کی غرض سے سوئمنگ پول پہنچ جاتے تھے،چنانچہ اس مرتبہ بھی ہم سوئمنگ پول جا پہنچے۔ میں سوئمنگ میں بہت تیز تھا، دس دس منٹ تک ڈبکی لگائے رکھتا تھا۔جب ہم سب ساتھی سوئمنگ پول کے پاس پہنچے تو دیکھا کہ پانی کا نل بند ہے۔ ساتھیوں نے فیصلہ کیا کہ واپس چلتے ہیں۔ مگر میں نے کہا کہ چلنے کی ضرورت نہیں، میں نل کھولتا ہوں، نل سوئمنگ پول کے نچلے حصے میں تھا۔سوئمنگ پول کی گہرائی کوئی تین ساڑھے تین میٹر تھی، جبکہ میرا قد ایک میٹر اور بیاسی سینٹی میٹر تھا، میں نے ایک کرسی کی مدد سے اندر جانے کی کوشش کی۔ میں نے سوئمنگ پول کے اندر داخل ہو کرنل کھولنے کیلئے ابھی ڈبکی ہی لگائی تھی کہ میں یکایک کرسی کے نیچے ہی دب کر رہ گیا۔ میرے ساتھی یہ سمجھتے رہے کہ میں چونکہ دیر تک پانی کے اندر ڈبکی لگائے رکھنے کا عادی ہوں، اس لئے میرے اوپر نہ آنے سے انہیں کوئی تشویش نہیں ہوئی۔ میں نے لاکھ کوشش کی کہ میں پانی کے اوپر آجائوں مگر اللہ تعالیٰ نے میرے لئے کچھ اور ہی مقدر کر رکھا تھا۔ میں نے پانی کے اندر جسم کو حرکت دینے کی لاکھ کوشش کی مگر جسم نے حرکت کرنے سے انکار کر دیا، پھر جب میں پانی کے اوپر آیا تو میرے جسم کا نچلا حصہ فالج زدہ ہو چکا تھا۔

سوئمنگ پول کے اندر جب میں پانی میں ڈوبا ہوا تھا تو مجھے یقین ہو چکا تھا کہ اب میں زندگی کے آخری مرحلے میں ہوں اور میرا جنازہ آج ہی اٹھایا جائے گا مجھے اس وقت یاد آیا کہ رسول اکرمؐ کی تعلیمات کے مطابق مصیبت کی گھڑی میں اپنے نیک اعمال کا حوالہ دے کر اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگی جائیں اللہ تعالیٰ قبول فرماتے ہیں۔ میںنے بھی جلدی جلدی اپنے ایک نیک عمل کے حوالے سے دعائیں مانگنی شروع کیں۔وہ نیک عمل یہ تھا کہ میں ایک زمانے میں اپنی آمدنی سے کچھ حصہ ایک ضرورت مند بڑھیا کو دے دیاکرتا تھا۔وہ بڑھیا میرے حق میں دعائے خیر کیا کرتی تھی۔میں جب بھی اس کو صدقہ دیتا اس کے دونوں ہاتھ میرے لئے آسمان کی طرف بلند ہو جاتے۔اللہ تعالیٰ نے اسی دوران پانی کے اندر نبی کریمؐ کی اس حدیث کی طرف بھی میری رہنمائی فرمائی
’’دنیا میں جس کا آخری جملہ لا الہ الا اللہ ہو گا، وہ جنت میں داخل ہو گا۔‘‘

چنانچہ میں نے کلمہ شہادت کا وِرد شروع کر دیا۔اس دوران میرے پیٹ میں بہت سارا پانی چلا گیا، اب مجھ پر بے ہوشی طاری ہو چکی تھی۔ میرے بھائی کا بیان ہے کہ تقریباً پندرہ منٹ بعد مجھے سوئمنگ پول سے باہر نکالا گیا۔ اگر اس طویل وقفہ کو دیکھیں تو میں ایک مردہ انسان تھا۔ مگر نبی کریمؐ کا ارشاد گرامی ہے
’’بھلائی کے کام بُری موت میں رکاوٹ بنتے ہیں۔‘‘

میرے بھائی کا بیان ہے کہ سوئمنگ پول سے نکالنے کے بعد مجھے اوپر نیچے کیا گیا۔میرے پیٹ پر ہاتھ رکھ رکھ کر دبایا گیا تو میرے منہ سے کئی لیٹر پانی نکلا۔جب مجھے ہوش آیا تو میں ہسپتال میں زیر علاج تھا۔چار سال تک میں ہسپتال میں رہا۔ ہسپتال میں میرا جو پہلا علاج ہوا وہ میرے حلق میں سوراخ کے سلسلے میں تھا، مجھے سانس لینے میں بڑی تکلیف ہو رہی تھی۔ تقریباً نو ماہ تک میں نے کوئی کلام نہیں کیا،کیونکہ سانس کی ہوا حلق کے راستے نکل جاتی تھی،آکسیجن کا بھی بڑا مسئلہ تھا۔کم و بیش سولہ چھوٹے بڑے آپریشن میرے جسم کے ہوئے۔ میری پشت کا سارا حصہ ناکارہ ہو چکا تھا۔دس بارہ برس تک میری کمر کا علاج چلتا رہا۔آج مجھے بستر مرض پر پڑے ہوئے کوئی چودہ سال کا عرصہ گزر چکا ہے۔میں بہت صبر و تحمل کے ساتھ یہ وقت گزار رہا ہوں۔

آج مجھے آپ ایک فالج زدہ انسان کی صورت دیکھ رہے ہیں۔اس کا سبب میں خود ہوں۔میں نے جوانی میں اپنے باپ کی نصیحت کی کوئی پروا نہیں کی۔ غفلت کی زندگی گزاری۔ جھوٹی قسم کا سہارا لیا اور برے ساتھیوں کی صحبت میں رہا، چنانچہ اس کا انجام بد اس صورت میں سامنے آیا کہ میں جوانی کے خوشگوار ایام سے محروم رہا۔آج میں آپ کے سامنے ایک اپاہج کی حیثیت سے بستر پر پڑا ہوں۔

میں اپنی ماں کے حوالے سے بھی چند باتیں آپ کے گوش گزار کر دینا مناسب سمجھتا ہوں۔ مجھے آج اس بات کا شدید احساس ہے کہ ہماری نئی نسل اپنے ماں باپ کی خدمت میں پیچھے کیوں ہے؟ہم نے آخر اپنے والدین کو کیا دیا ہے؟ جبکہ انہوں نے ہمیں جنم دیا۔ہماری پرورش و پرداخت کی، ہمیں عدم سے وجود میں لانے کا وہی سبب بنے۔ میرے پاس ایک دفعہ بیس یتیموں پر مشتمل ایک ٹیم آئی، وہ لوگ میرے ارد گرد بیٹھ گئے۔ میں نے ان کو اپنا واقعہ تفصیل سے سنایا۔ انہوں نے مجھ سے جو کچھ پوچھا میں نے اس کا جواب دیا۔ جب وہ میرے پاس سے اُٹھ کر جانے لگے تو ان میں سے ایک نوجوان میرے پاس ہی کھڑا رہ گیا۔ وہ ٹیم کے ساتھ باہر نکلا۔ وہ زار و قطار رو رہا تھا۔ اس کے آنسو دیکھ کر میرے قریب بیٹھے ہوئے لوگوں کے بھی آنسو نکل پڑے۔ میں نے اس سے دریافت کیا، عزیزم
آخر تمہیں یکا یک کیا ہو گیا کہ تم زار و قطار رونے لگے؟ نوجوان نے عرض کیا
’’عبداللہ، میرے دل میں یہ خواہش پیدا ہو رہی ہے کہ کاش آپ کی جگہ میں ہوتا۔‘‘
میں نے نوجوان سے کہا
’’میرے بھائی،اللہ کا خوف کرو، تم کیوں چاہتے ہوکہ میری جگہ تم آ جائو؟‘‘

اس نے انتہائی معصومیت سے کہا، تمہارے پاس ماں باپ ہیں اور ہم ماں باپ کے سائے کے بغیر جی رہے ہیں۔اس کے باوجود کہ آپ ناگفتہ بہ حالت میں ہیں پھر بھی آپ بے حد خوش قسمت ہیں کہ آپ کے والدین ابھی زندہ ہیں اور آپ کے پاس موجود ہیں۔ جبکہ ہمارے پاس یہ عظیم نعمت موجود نہیں۔ بھلا ماں باپ جیسی انمول دولت دنیا میں کہاں ملتی ہے۔

قارئین کرام، یہ تھا یمن کے اس نوجوان کا قصہ جو آج بھی زندہ ہے اور جدہ میں مقیم ہے۔اس کے
والدین بھی الحمدللہ اب تک بقید حیات ہیں۔ عبداللہ با نعمہ نامی یہ نوجوان آج ایک کامیاب داعی بن چکا ہے، دنیا کے مختلف معروف چینلز پر اس کے پروگرام نشر ہو چکے ہیں۔جب آپ اس سے ملیں گے تو وہ سلام دعا کے بعد انتہائی محبت سے آپ سے محوِ گفتگو ہو گا۔آپ جب اس سے اس کی حالت کے بارے میں پوچھیں گے تو وہ آپ کو اپنا قصہ ضرور سنائے گا۔