ناپاک جانوروں کو پالنا وباؤں کا باعث

ناپاک جانوروں کو پالنا وباؤں کا باعث

اسلام نے نجس جانوروں کو پالنے سے منع کیا، طبی ماہرین کے مطابق خطرناک جراثیم اور وبائیں جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہوتی ہیں
(ظفر سلطان)

اسلام نے جانوروں کے حقوق کا پورا خیال رکھا ہے، بے زبان جانوروں پر زیادتی سے منع کیا ہے ان کے ساتھ حسن سلوک کو جنت کا ذریعہ قرار دیا ہے، جانوروں کے ساتھ حسن سلوک یہ ہے کہ انہیں بلاوجہ تکالیف پہنچانے سے گریز کیا جائے، حسن سلوک کا قطعی طور پر یہ مطلب نہیں ہے کہ ناپاک و نجس جانوروں کو پالنا شروع کر دیا جائے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آج سے چودہ سو سال قبل جو احکام بتائے آج کی جدید سائنس سے اس کی تصدیق ہو رہی ہے۔ طبی ماہرین کی متفقہ رائے ہے کہ جانوروں میں پائے جانے والے خطرناک جراثیم انسانوں میں منتقل ہوتے ہیں جو وبا پھیلنے کا باعث بنتے ہیں۔

مہلک ترین وائرس کورونا کے بارے ایک رائے یہ بھی ہے کہ چین میں چونکہ چمگادڑوں کو کھانے کا رواج ہے تو انہی سے یہ وائرس پھیلا جس سے پوری دنیا میں ہلاکت خیزی پھیلی، اس مہلک وائرس سے سترہ ملین یعنی پونے دو کروڑ لوگ موت کے منہ میں چلے گئے، اب منکی پاکس وائرس دنیا کے کئی ممالک میں پھیل رہا ہے جو انسانی جلد کو متاثر کرتا ہے، افریقی ممالک میں یہ وائرس زیادہ پھیل رہا ہے ، اس وائرس سے اب تک نو ہلاکتیں ہو چکی ہیں نو گانگو میں اور ایک نائیجریا میں، اب برطانیہ میں بھی اس کے مریض سامنے آئے ہیں، طبی ماہرین نے کہا ہے کہ یہ وائرس بندروں اور چوہوں سے پھیل رہا ہے،اس وجہ سے اس کا نام منکی پاکس پڑ گیا ہے۔ اسی طرح نجس جانوروں سے آئے روز وائرس پھیلتے رہتے ہیں جو انسانی تباہی کا سبب بنتے ہیں۔ اگر ہم اسلام کی تعلیمات پر عمل کریں اور ناپاک جانوروں کو پالنے سے گریز کریں تو خطرات سے محفوظ رہ سکتے ہیں، افسوس ناک بات یہ ہے کہ آج کتوں، بلیوں اور دوسرے نجس جانوروں کو پالنے کا فیشن بن چکا ہے بلکہ پالتو جانوروں کو سٹیس سمبل سمجھا جانے لگا ہے۔

اسلام نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ جس برتن میں کتا منہ ڈال دے اسے پاک کرنے کیلئے سات مرتبہ دھویا جائے، ایک روایت میں آٹھویں بار مٹی سے پاک کرنے کے الفاظ بھی ملتے ہیں، آج کی سائنس بتاتی ہے کہ کتے میں انتہائی خطرناک جراثیم پائے جاتے ہیں جو برتن کو بار بار دھونے سے ہی ختم ہو سکتے ہیں، آپ اندازہ لگائیں اسلام نے یہی بات آج سے چودہ سو سال پہلے بتا دی جب سائنس کا وجود تک نہ تھا، ہمیں سمجھ جانا چاہئے کہ اللہ کے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو احکام ہمیں دیئے انسانیت کی فلاح اسے مان لینے میں ہے، اس کے مقابلے میں عقل کے گھوڑے دوڑا کر دلائل دینے سے گریز کرنا چاہے۔ ایک انگریز ڈاکٹر نے اس پانی کی، جس میں کتے نے منہ ڈالا تھا، خردبین کے ذریعے تحقیق کی تو اسے پتہ چلا کہ اس پانی میں کتے کے لعاب کے جو جراثیم آجاتے ہیں وہ مٹی کے سوا کسی اور چیز سے نہیں مرتے کیونکہ مٹی میں نوشادر وافر مقدار میں ہوتا ہے جو اور کسی چیز میں نہیں ہوتا اور یہ کتے کے لعاب میں پائے جانے والے تمام جراثیموں کو ختم کرنے کیلئے کافی ہوتا ہے۔

اسی لئیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مٹی کا نام لیا تاکہ بازاروں میں نوشادر تلاش کرنا نہ پڑے۔ اسی طرح ایک فرانسیسی ڈاکٹر اور اس کی ڈاکٹر بیٹی مصر میں مقیم تھے۔ جب باپ نے یہ حدیث پڑھی تو فوری طور پر کتے کے سامنے ایک برتن میں پانی رکھ دیا۔ جب وہ اس کو پی چکا تو انہوں نے خردبین میں سے دیکھا کہ اس میں جراثیم موجود تھے۔ پانی گرا کر کئی بار دھویا گیا مگر ہر بار جراثیم برتن میں موجود تھے۔ جب مٹی سے مانجھا گیا اور پھر دھو کر خردبین میں چیک کیا تو جراثیم نہ صرف بالکل ختم ہوگئے تھے بلکہ برتن بھی کُلی طور پر پاک و صاف ہوگیا تھا۔ اس پر دونوں باپ بیٹی مسلمان ہوگئے۔

طبی ماہرین کے مطابق کتے ریبیز وائرس کی وجہ سے پاگل ہو جاتے ہیں، کتے کے لعاب میں ریبیز وائرس موجود رہتا ہے، اس دوران اگر وہ کسی انسان کو کاٹ لے تو یہ خطرناک وائرس انسان کے خون میں منتقل ہو جاتا ہے، باؤلے کتے کے کاٹنے سے انسان چند گھنٹوں میں تڑپ تڑپ کر موت کے منہ میں چلا جاتا ہے اس کی موت آسان نہیں ہوتی ہے، ایسا انسان پانی سے ڈرتا ہے، غصہ کرتا ہے اور ہر وقت ڈرا سہما رہتا ہے اس کی تکلیف کو دیکھنے والے اس کی موت کی دعا کرتے ہیں۔

احادیث مبارکہ میں وارد ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر کسی برتن میں کتا منہ مار دے تو اس کو سات مرتبہ دھونا چاہیے۔ اسی طرح ایک اور حدیث میں ہے کہ جس برتن میں کتا منہ مار دے اس کو بہا دیا جائے اس کے بعد اس کو سات مرتبہ دھو لیا جائے۔ اس کے علاوہ کتے کے جھوٹے سے متعلق دیگر روایات بھی ہیں جن سے کتے کی نجاست ثابت ہوتی ہے۔ ان احادیث کی بنا پر فقہاء احناف نے کتے کو نجس قرار دیا ہے، لیکن یہ بات ملحوظ رہے کہ صحیح قول کے مطابق کتا نجس ہے، نجس العین نہیں ہے، لہذا اس کی جلد وغیرہ بھی پاک ہو سکتی ہے۔ متعدد احادیث میں کتا پالنے کی سخت ممانعت آئی ہے، جہاں کتا ہوتا ہے وہاں رحمت کے فرشتے نہیں آتے۔ اور ایک حدیث میں ہے کہ بلا ضرورت کتا پالنے والے کے اعمال میں سے روزانہ ایک قیراط کم کر دیا جاتا ہے۔ لہذا کتوں کو گھر میں رکھنا خیر و برکت سے محرومی کا باعث ہے ، اس لیے کتوں کے پالنے سے اجتناب بہت ضروری ہے۔ البتہ اگر کتے کو جانوروں اور کھیتی کی حفاظت کے لیے یا شکار کے لیے پالا جائے تو اس کی شریعت نے اجازت دی ہے۔ لہذا شوقیہ کتے کو پالنا جائز نہیں ہے، حفاطت یا شکار کی نیت سے پالنا درست ہے۔

اصحاب کہف کا تذکرہ کرتے ہوئے جہاں ان کے کتے کا ذکر آیا ہے وہاں امام قرطبی نے لکھا ہے کہ اس شریعت میں کتے پالنے کی اجازت ہو گی، اس لیے انہوں نے کتا ساتھ لیا ہو گا یا کسی کی بکریوں کی حفاظت کے لیے تھا۔ اور فروعی احکام میں ایسا ہوتا رہتا ہے کہ مختلف شریعتوں میں فروعی احکام مختلف دیے گئے۔ بہرحال اصحاب کہف کے واقعہ سے کتے کو پالنے کے جواز پر استدلال کرنا درست نہ ہو گا، اسی طرح مفسرین کرام نے جہاں اصحاب کہف کا ذکر کیا ہے تو وہاں اس بات کی بھی وضاحت فرمائی ہے کہ اصحاب کہف کا کتا صلحاء کے ساتھ رہا اس کی برکت سے اللہ پاک نے قرآن مجید میں اس کا ذکر فرما دیا، یہ اس کتے کی جزوی فضیلت تھی، اصحاب کہف کے کتے سے مطلقاً کتے کی فضیلت پر استدلال کرنا درست نہیں۔

فقہاء احناف نے شکار وغیرہ کے لیے کتے کی تجارت سے متعلق یہ صراحت فرمائی ہے کہ اس کی خرید و فروخت جائز ہے جب کہ وہ کتا سدھایا ہوا ہو یعنی شکاری ہو یا حفاظت کے لیے ہو۔ بلا ضرورت کتے کو پالنا جائز نہیں اور فرشتوں کی آمد کے لیے رکاوٹ بھی ہیں، مغربی معاشرہ کے غیر مسلم شریعت محمدی کی جزئیات کے مکلف نہیں ہیں، اس لیے یہ احکامات ان کی طرف متوجہ نہیں ہوں گے۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ اس گھر میں فرشتے نہیں آتے جس گھر میں کتے ہوں یا تصاویر ہوں، لہذا کتوں کو گھر میں رکھنا رحمت کے فرشتوں سے محرومی کا موجب ہے، اس لیے اس سے جس قدر ہو سکے احتراز کرنا ضروری ہے۔

یہاں قابل غور امر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانوں کیلئے جو احکامات بتائے ہیں وہ ہر لحاظ سے انسانوں کیلئے مفید ہیں، ایک مسلمان کیلئے یہ بات کافی ہونی چاہئے کہ اللہ نے اس کام سے رکنے کا حکم دیا ہے، کیونکہ ایک مومن کی شان یہ ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جس کام کے کرنے کا حکم دیا ہے وہ کرے اور جس کام سے منع کیا ہے اس سے رک جائے، اسی کا نام اطاعت ہے اور اس سے انحراف نافرمانی کہلاتا ہے، اگر ہم عقل اور محض شوق کی بنیاد پر وہ کام کرنا شروع کر دیں گے جن سے منع کیا گیا ہے تو اس کا نتیجہ سوائے نقصان کے کچھ نہیں ہو گا۔