وزیراعظم محمد شہباز شریف کا دورہ ترکی

مسلم لیگ (ن ) اور خاص کر شریف فیملی یا میاں برادران کے اقتدار میں آنے سے خارجہ پالیسی میں بڑی تبدیلیاں نمایاں نظر آتی ہیں، خاص کر برادر اسلامی ممالک جن میں ترکی سرفہرست ہے۔ برادر اسلامی ملک ترکی کے ساتھ وزیراعظم محمد شہباز شریف کے ہمیشہ بڑے اچھے تعلقات رہے ہیں، وہ جب وزیراعلیٰ پنجاب تھے تب بھی انہوں نے ترکی کے ساتھ بہترین تعلقات نبھاتے ہوئے پنجاب کے لئے بڑے بڑے ترقیاتی کام کروائے۔ جن میں میٹرو بس سرفہرست ہے، تاہم دیگر منصوبے بھی پنجاب میں بڑے پیمانے پر پایہ تکمیل پہنچائے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ وزیراعظم پاکستان کے بعد اپنے پہلے دورہ ترکی کے لئے گئے ہوئے ہیں۔ اس حوالے سے وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب کا کہنا ہے کہ یہ دورہ پاکستان کے روایتی بااعتماد دوستوں اور برادر ممالک سے دوطرفہ تعلقات کی تجدید کے سلسلے کی ایک اہم کڑی ہے۔ یہ دورہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کے فروغ کے علاوہ سرمایہ کاری، تجارت، صحت، تعلیم، ثقافت اور باہمی مفاد کے دیگر شعبہ جات میں تعاون کے حوالے سے بھی نہایت اہم ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف کو اس دورے کی دعوت ترک صدر نے دی تھی، دورہ ترکی کے دوران وزیراعظم نے دوطرفہ تعلقات، تجارت، سرمایہ کاری سمیت مختلف موضوعات پر تبادلہ خیال کیا، علاوہ ازیں ہائی لیول اسٹریٹجک کوآپریشن کونسل کی ساتویں میٹنگ میں دفاع، توانائی، تجارت سمیت مختلف موضوعات پر بات چیت ہوئی۔ اس موقع پر پاک ترکی بزنس کونسل کا اجلاس، ترک سرمایہ کاروں اور تاجروں سے ملاقاتیں بھی ہوئیں۔ وزیراعظم محمد شہباز شریف نے اپنے اس دورے کے موقع پر مصطفیٰ کمال اتاترک کے مزار پر بھی حاضری دی۔ ترک صدر رجب طیب اردوان کے ہمراہ وزیراعظم ترکی اور پاکستان کے سفارتی تعلقات کے قیام کے 75 سال مکمل ہونے کے موقع پر یادگاری نشان جاری کیا۔ صدر اردوان نے وزیراعظم کے اعزاز میں عشائیہ بھی دیا۔
محمد شہباز شریف کے وزیراعظم بننے کے بعد اب انشاء اللہ پاکستان اور ترکی کے تجارتی تعلقات میں نیا دور آنے والا ہے،کیونکہ ترکی ہمیشہ پاکستان کے ساتھ کھڑا ہے اور ہمیشہ کھڑا رہے گا، پاکستان گزشتہ دور حکومت کے برسوں میں شدید مالی بحرانوں کا شکار رہا، مگر اس بحرانی کیفیت میں بھی ملک کی معیشت کو صحیح سمت میں لے جانے کے لئے موجودہ حکومت وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف کی قیادت میں اپنی کوششوں کو جاری رکھے ہوئے ہے جب کہ اس حوالے سے دیگر ممالک کے ساتھ تجارت کو خاص ترجیح دی جا رہی ہے، ترکی نے ہمیشہ عالمی سطح پر بھی کشمیر سمیت دیگر معاملات پر پاکستان کی بھرپور حمایت کی ہے اور گرے لسٹ کے معاملے پر بھی ترکی پاکستان کے ساتھ کھڑا دکھائی دیا ہے جوکہ ایک مضبوط دوستی کا واضح ثبوت ہے، لہذا وزیراعظم محمد شہباز شریف کے دورہ ترکی کے موقع پر تجارتی تعلقات کے ذریعے یہ دوستی مزید آگے بڑھے گی، جس سے دونوں ممالک کے عوام کو بھی فائدہ پہنچے گا۔
اسلامی برادر ملک ترکی نے ہمیشہ پاکستان کے ساتھ یکجہتی سے بڑھ کر محبت کا اظہار کیا ہے۔ پاکستان اور ترکی کے سرکاری ذرائع ابلاغ کے مابین تعلقات بھی مثبت رہے ہیں۔ اسی آپس کے تعلق سے ترکی اور پاکستان میں ثقافتی روابط کو ہمیشہ فروغ حاصل رہا ہے، اس طرح کے عمل سے ایک دوسرے کی روایات کو سمجھنے کی حوصلہ افزائی بھی ہوئی ہے اور عوامی سطح پر مزید قربت پیدا ہوئی ہے۔ لہذا اب مزید دونوں برادر ممالک کے درمیان تعلقات میں قربت آئے گی، وزیراعظم محمد شہباز شریف کی قیادت میں پاکستان اور ترکی کے درمیان تجارتی حجم کو بھی بڑھایا جا رہا ہے، جن میں ریلوے، ٹرانسپورٹ، انفراسٹرکچر، ثقافت اور خوراک سمیت مختلف شعبہ جات شامل ہیں جوکہ آنے والے وقت میں ملکی معیشت کے لئے مفید ثابت ہوں گے۔
یہ امر حقیقی ہے کہ پاکستان کا ترکی کے ساتھ مذہبی، تہذیبی، ثقافتی اور تاریخی مذہبی رشتہ استوار ہے۔ ترکی پاکستان کے ساتھ تعاون کو ترجیح دیتا رہا ہے، پاکستان اور ترکی کے درمیان تعلقات میں مذہب، ثقافت، ادب اور مشترکہ تاریخ پرتعلقات وقت کے ساتھ ساتھ مزید مضبوط ہوتے رہے ہیں۔ دونوں ممالک ادبی اور لسانی لحاظ سے بھی ایک دوسرے کے قریب ہیں۔ دونوں ممالک کی زبانوں میں لاتعداد کتابیں تخلیق اور لکھنے کا سلسلہ جاری ہے۔ ترکی کے ڈرامے اورآرٹ کلچر اردو میں ترجمہ ہو کر پاکستانی چینلوں پر دکھائے جاتے ہیں ۔ پاکستان اور ترکی برادر ممالک ہیں اور دونوںاپنے تعلقات کی بہتری میں مزید قربت کے خواہاں ہیں۔ ثقافتی شعبہ میں تعاون اور علم وادب کے فروغ کے لئے مشترکہ کوششیں نہایت مفید ثابت ہوسکتی ہیں۔ پاکستان اور ترکی کے درمیان کئی اقدار مشترک ہیں، دونوں اسلامی بھائی چارے کے رشتوںمیں بندھے ہوئے ہیں۔ دونوں ممالک کے عوام کے درمیان علمی وادبی رشتوں کو پروان چڑھانے کے لئے مختلف پروگرام شروع کرنے کی مزید ضرورت ہے۔ لہذا وزیراعظم محمد شہباز شریف کا حالیہ دورہ ترکی دونوں ممالک کے لئے بہتر ثابت ہو گا۔

مزید پڑھیں:  ملازمین اور پنشنرز کا استحصال ؟