مشرقیات

ایک چینی ماہر معاشیات نے پاکستانی معاشیات کے کرتا دھرتائوں سے ایک میٹنگ میں بغیرپیچیدہ اور گنجلک اعداد و شمار اصولوں کے اچھی معاشی پالیسیوں کے اصول انگلیوں کے اشاروں سے سمجھا دیئے ہیں۔ انہوں نے صاف اور واضح الفاظ میں سمجھا دیا کہ پاکستان کے معاشی معاملات کی خرابیوں میں سب سے بڑا حصہ جاپان کا ہے ۔ جاپان کی تین بڑی کار مینوفیکچرنگ کمپنیاں ‘ ٹویوٹا ‘سوزوکی اور ہنڈا پاکستان میں قائم اپنے پلانٹس کے ذریعے جاپان سے درآمد شدہ اجزاء (پارٹس) کو اسمبل کروکرا دھڑا دھڑ موٹر کاریں تیار کروا کر پاکستانیوں پر بنکوں کی سود کے ذریعے مہنگے داموں فروخت کر رہی ہیں۔ ان کاروں کی تیاری کے لئے جو پرزہ جات منگوائی جاتی ہیں ‘ اس کے لئے زرمبادلہ (فارن ایکسچینج) کی ضرورت ہوتی ہے اور پھر ان کاروں میں جوایندھن جلتا ہے وہ بھی زرمبادلہ کے ذریعے ہی آتا ہے ۔ اس کے علاوہ پاکستان کا اشرافیہ اپنے سٹیٹس سمبل(شان وشوکت) کواونچا اور امتیازی رکھنے کے لئے بڑی بڑی گاڑیاں امپورٹ کرتا ہے جس میں بے تحاشا ایندھن استعمال ہوتا ہے ۔ اس کے علاوہ تعمانہ(لگژوریس) زندگی کی اشیاء بھی باہر سے منگوائی جاتی ہیں۔ جس کے نتیجے میں پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر پر شدید دبائو پڑتا ہے اور پھرپاکستان یار دوستوں سے بھیک اور آئی ایم ایف ورلڈ بینک وغیرہ سے قرض پکڑتا ہے اور یوں پاکستان میں اتنی مہنگائی ہوجاتی ہے کہ لوگ(عوام) خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہوتے ہیں ۔ خود دار افراد اور قومیں روکھی سوکھی کوبھیک اور شرمساری کے قرضوں پر ترجیح دیتی ہیں۔ مسلمان امت کی تو یہ شان رہی ہے کہ ان کی تاریخ آج کے پاکستان میں صبح و شام وقوع پذیر ہونے والے واقعات سے خالی رہی ہے ۔ خاتم النبینۖ اور صحابہ کرام کی زندگیوں میں کہیں دور دور تک ایسے واقعات کی نشانی تک نہیں ملتی۔ یہی وجہ تھی کہ وہ دنیا میں نامور رہے ۔ سر بلند رہے ‘ کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلایا۔ کم جی ڈی پی اور کمزور معیشت کے ساتھ بھی وہ مقروض نہ تھے ان کے ہاں اسراف کا نام و نشان نہ تھا اللہ اور اپنے وسائل پر توکل کئے قیصر وکسریٰ کا مقابلہ کیا۔ نہ ان بڑی طاقتوں بلکہ اپنے وقت کی سپر طاقتوں سے دبے اور نہ ہی مرعوب ہوئے ‘ اور ایک دن آیا کہ دونوں سپر پاورز سرنگوں ہوئے پاکستان کے معاشیات کا زوال ہر باشعور شخص کو معلوم ہے پروٹوکول کے نام پر بیسیوں گاڑیاں بیک وقت دوڑنے کا سلسلہ رک نہ سکا۔افسروں کے نخرے ‘ پروٹوکولز ‘ عیاشیاں اور مسرفانہ اخراجات وغیرہ میں کہیں بھی اور کوئی بھی تبدیلی واقع نہیں ہو سکی۔ 1990ء کے زمانے کی سڑکوں اور انفراسٹرکچر پر دس گنا زیادہ آبادی اورموٹر کاریں برداشت نہ ہونے والا بوجھ لاد دیا گیا ہے ۔ ملک و معاشرے کی چولیں ڈھیلی نہ پڑیں گی تو اور کیاہو گا۔ اس غریب معاشرے میں اب بھی غیرضروری رسم ورواج اور طبقہ اشرافیہ کے وسائل پر قبضہ نے ملک کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے ۔ہر حکمران کہتا ہے کہ ہم سے پہلے کے حکمرانوں کے ملک کو دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچایا تھا۔ ہم نہ آتے تو ملک کب کا دیوالیہ ہوچکا تھا ۔ لیکن اس کے باوجود ہم ہیںسنبھلتے نہیں۔

مزید پڑھیں:  اک نظر ادھربھی