گورنر راج کی بحث کیوں؟

وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان کی جانب سے گورنر راج لگانے کے حوالے سے جن خیالات کا اظہار کیا گیا ہے وہ اپنی جگہ لیکن فی الوقت صوبے میں ایسے حالات نہیں کہ جس میں گورنر راج لگانے کی ضرورت پڑے ۔وزیر اعلیٰ نے جس بیان کے جواب کے تناظر میں یہ بات کہی ہے اس کا قد کاٹھ اتنا نہیں کہ ان کے بیان کو وقعت دی جاتی اس وقت صورتحال یہ ہے کہ صوبے میں تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے سپیکر صوبائی اسمبلی قائم مقام گورنر کے فرائض سر انجام دے رہے ہیںایسے میں گورنر راج لگانے کاتو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا بعد ازاں مرکز صوبے میں گورنر کا تقرر کر بھی لے تو ایسے حالات پھر بھی نہیں نظر آتے کہ گورنر راج لگانے جیسے بڑے اقدام کی نوبت آئے ہم سمجھتے ہیں کہ صوبے میں سیاسی اور حکومتی حالات و تعلقات کو ایک دائرے میں رکھنا خود وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کے ہاتھ میں ہے اور یہ ان کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ نہ صرف حالات کو ساز گار رکھے بلکہ مرکزی حکومت سے صوبے کے حصے کے وسائل کے حصول کے لئے بھی اپنی ذمہ داریاں نبھائیںایسا اسی وقت ہی ممکن ہو گا جب سیاسی کشیدگی سے حکومتی معاملات کو دور رکھا جائے اور مرکز کے ساتھ آئین اور قانون کے مطابق تعلقات رکھے جائیں۔وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کو کسی قسم کے خدشات میں مبتلا ہونے کی بجائے اپنا آئینی فرض ادا کرتے رہنا چاہئے اور صوبے کے معاملات کو مقررہ دائرہ کار میں احسن انداز میں چلانے کی پوری سعی کرنی چاہئے سیاسی معاملات کو اس حد تک لے جانے سے گریز کیا جانا چاہئے جس کا رد عمل اچھا نہ آنے کا خدشہ ہو۔
پانی کی کمی کے بحران کا سنگین مسئلہ
اس امر سے تشویشناک صورتحال کی عکاسی ہوتی ہے کہ پاکستان کی تقریباً80فیصد آبادی کو پینے کے صاف پانی تک رسائی حاصل نہیں ہے۔ محققین نے پیش گوئی کی ہے کہ پاکستان2040 تک خطے میں سب سے زیادہ پانی کی کمی کا شکار ملک بننے کی راہ پر گامزن ہے۔2016 کی پی سی آر ڈبلیو آر کی رپورٹ کے مطابق پاکستان نے 1990 میں پانی کے دبائو کی لکیر کو چھو لیا تھا اور2005 میں پانی کی کمی کی لکیر کو عبور کر لیا تھا۔ اگر یہ صورتحال برقرار رہی تو پاکستان کو پانی کی شدید قلت یا خشک سالی جیسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔یہ تمام صورتحال پاکستان کی معیشت کو بہت زیادہ نقصان پہنچا رہی ہے۔ پاکستان اسپیس اینڈ اپر ایٹموسفیئر ریسرچ کمیشن کی رپورٹ کے مطابق صرف ماحولیاتی انحطاط کی سالانہ مالیاتی لاگت جی ڈی پی کی تقریباً 4.3فیصد کے برابر بنتی ہے۔ماہرین کے مطابق پاکستان کو گرین اکنامک ماڈل کی ضرورت ہے۔جس کا تقاضاتمام بڑے ہائیڈرو پاور اور کول پاور پراجیکٹس کو ختم کردیا جائے۔ ہوا اور شمسی توانائی کی طرف رجوع کیا جائے عملی حقائق یہ ہیں کہ پاکستان پہلے ہی بہت زیادہ قرضوں کے نیچے دبا ہوا ہے۔ وہ عالمی برادری کی مدد کے بغیر ان چیلنجز پر قابو نہیں پا سکتا اور یہ امداد قرضوں کی شکل میں نہیں ہونی چاہیے بلکہ مالی امداد کی صورت میں ہو۔
سرکاری جامعات کے مسائل کے حل کے تقاضے
قائم مقام گورنر مشتاق غنی کی جانب سے صوبے کی سرکاری جامعات کو درپیش مسائل کے حل کی یقین دہانی اس لئے کافی نہیں کہ عملی طور پر صوبے میں سرکاری جامعات کا آوے کا آوا بگڑتا جارہا ہے خاص طور ر تدریسی عملے کی مشکلات لاینحل صورت اختیار کرتے جارہے ہیں صوبے کی جامعات میں وزیٹنگ فیکلٹی کے اساتذہ کو گزشتہ سمسٹر اور اختتام پذیر سمسٹر کے معاوضے ابھی تک نہیں مل سکے نیز سرکاری جامعات میں تدریسی عملے کی بھرتی کی بجائے الٹا بلاوجہ درخواستوں کے ساتھ بھاری فیس کی وصولی کے باوجود معاملات کو آگے بڑھانے کی بجائے چپ سادھ لینے کا عمل جاری ہے جامعات میں اقربا ء پروری اور سیاست بازی سے بھی تعلیم کا ماحول متاثر ہو رہا ہے جب تک سرکاری جامعات میں میرٹ پر فیصلے اور وقت پر معاوضوں کی ادائیگی نہیں ہو گی بگاڑ میں اضافہ فطری امر ہو گا قائم مقام گورنر کو اس صورتحال کا نوٹس لینا چاہئے اور جب تک وہ اس عہدے پر ہیں جامعات کو اس صورتحال سے نکالنے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہئے ۔

مزید پڑھیں:  جگر پیوند کاری اور بون میرو ٹرانسپلانٹ سنٹرز کا قیام