یہ وطن سلامت رہے تا قیامت

سابق وزیر اعظم عمران خان نے وطن عزیز کے مستقبل کے بارے میں ایک انٹرویو میں جن خیالات کا اظہار کیا ہے وہ پورے ملک میں مموضوع بحث ہے اس لئے ان کے اعادے کی ضرورت نہیں اور نہ ہی مناسب ہوگا اپنے دور اقتدار اور حکومت کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ جب ان کی پارٹی اقتدار میں آئی تو ان کی حکومت کمزور تھی اور اسے اتحادیوں کی ضرورت پڑی۔انہوں نے کوئی وضاحت یا حوالہ دیے بغیر کہا ہمارے ہاتھ بندھے ہوئے تھے’ ہمیں ہر جگہ سے بلیک میل کیا گیا’ طاقت ہمارے پاس نہیں تھی’ سب جانتے ہیں کہ پاکستان میں طاقت کا مرکز کہاں ہے اس لئے ہمیں ان پر انحصار کرنا پڑا۔ سابق وزیر اعظم ہونے کی حیثیت سے تحریک انصاف کے قائدریاستی اور حکومتی رازوں کے آمین ہیں جس کا انہوں نے حلف اٹھا رکھا ہے ایسے میں کسی قسم کی ایسی گفتگوجس سے ملک و ریاست کے حوالے سے کوئی بات بصورت تبصرہ ‘ پیشگوئی یا پھر انٹرویو میںایسے خیالات کا اظہار جس سے ملک دوراہے پہ کھڑا دکھائی دے اور خدانخواستہ ملک کا مستقبل خطرے میں نظر آئے گریز کرنے کی ضرورت ہوتی ہے سابق وزیر اعظم نے تنبیہ کے انداز میں جو گفتگو کی ہے وہ اس کے سابق منصب کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے وزیر اعظم کے کیا تجربات رہے ہیں اور ان کے جذبات و احساسات کیا ہیںماضی سے لے کر آج تک کے تعلقات میں کیا اتار چڑھائو آیا اس سے قطع نظرملک و قوم کے مستقبل کے حوالے سے جن خدشات نما خیالات کا اظہار کیا گیا ہے وہ ایک عام آدمی کے لئے نہایت تشویشناک امر ہے ایک ایسے وقت میں جب ملک شدید قسم کے معاشی مسائل سے دو چار ہے ایسے میں ذرا سی غیر محتاط گفتگو کا بہت زیادہ نقصان ہو سکتا ہے ہم سمجھتے ہیں کہ یہ حالات دوران گفتگو تحریک انصاف کے قائد کے پیش نظر نہیں ہوں گے وگر نہ ملکی سیاست کے اس اہم کردار اور سابق وزیر اعظم سے اس طرح کے غیر محتاط گفتگو کی توقع نہیں کی جا سکتی اس امر کے اعادے کی ضرورت نہیں کہ سیاست حدود و قیود کی پابند ہوتی ہے اس کے اندر رہ کر تنقیداور تجاویز دینا اختلاف کا حق استعمال کرنا نیز احتجاج بھی قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے کرنے کی ضرورت ہوتی ہے حدود سے تجاوز کی نہ تو سیاسی عناصر کو اجازت ہوتی ہے اور نہ ہی حکومت ایسے اقدامات کر سکتی ہے جو آئین کے دائرے سے باہر ہوسابق وزیر اعظم نے ہیٔت مقتدرہ کے اپنی حکومت میں کردار کے حوالے سے جن تجربات کا ذکر کیا ہے دوران حکومت ان کے خیالات اس حوالے سے واضح طور پر مختلف تھے اور ایک قرطاس پر ہونے کا بار بارخود ان کی جانب سے اعادہ ہوتا رہا ہے جبکہ اقتدار سے محرومی کی صورت میں خطرناک ہونے کی بار بار ان کی جانب سے تنبیہ کی جاتی رہی ہے اسے کبھی بھی ان معنوں میں نہ لیا گیا اور نہ سمجھا گیا جس صورت میں انہوں نے ایک انٹرویو میں اس کی تصویر پیش کی ہے وطن عزیز میں اقتدار میں آنا اور دوران اقتدار یکساں قسم کی شکایات اور مشکلات پیش آنا معمول سمجھا جاتا ہے اور ہر حکومت کے اختتام کے بعد ان شکایات کا اظہار بھی ہوتا رہا ہے سابق وزیر اعظم نواز شریف اقتدار سے محرومی کے بعد ایک دائرے کے اندر رہتے ہوئے جن خیالات کا اظہار کرتے رہے ان کا مذاق اڑایا جاتا رہا لیکن آج جس صورتحال کی شکایت عمران خان کر رہے ہیں وہ اس سے مختلف نہیںان تمام عوامل سے قطع نظر درست فیصلہ نہ کرنے کی پاداش میں جس منظر نامے کی سابق وزیر اعظم نے منظر کشی کی ہے وہ نہایت بھیانک اور پورے قوم کے لئے تشویش کی بات ہے ایک سابق وزیر اعظم کی حیثیت سے تقریباً دو ماہ قبل کیا ان کو ان عوامل کا ادراک تھا اگر ایسا ہی ہے اور ایسا ہی ہونا بھی چاہئے تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بطور وزیر اعظم انہوں نے اس ضمن میں کیا اقدامات اور فیصلے کئے اور اگر اقتدار سے محرومی کے ان دو مہینوں کے اندران کے خیالات میں تبدیلی آئی ہے تو یہ الگ بات ہے جن عوامل کی جانب اشارہ کیا گیا ہے وہ مہینے دو مہینے میںاچانک پیدا ہونے والے حالات نہیں بلکہ برسوںکے حالات کا نتیجہ ہو سکتے ہیں ایسے میں ہئیت مقتدرہ ہی اس کی واحد ذمہ دار نہیں بلکہ عسکری قیادت ‘عدلیہ ‘ میڈیا ‘حکومت اور حکمرانان وقت اور ہر وہ ادارہ اور شخصیت جو فیصلہ سازکردار کا حامل ہو ذمہ دار قرار پاتا ہے چونکہ اقتدار کی باگ ڈور سیاستدانوں اور حکمرانوں کے ہاتھ میں ہوتی ہے یہ دیکھے بغیر کہ ان کے ہاتھ کس حد تک بندھے تھے اولین ذمہ داری بہرحال انہی پر عائد ہوتی ہے اور قوم نے بھی یہ ذمہ داری انہی کو سونپی تھی بالفرض محال اگر ان کے ہاتھ مکمل طور پر بندھے ہوئے تھے توسوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انہوں نے اس صورتحال سے قوم کوبروقت آگاہ کیوں نہیں کیا خود سابق وزیر اعظم سے یہ سوال کیا جا سکتا ہے کہ اگر حالات اتنے ہی ناموافق تھے تو کیا استعفیٰ دے کر قوم کو صورتحال سے آگاہ کرنا ان کی ذمہ داری نہیں تھی محرومی اقتدار کے بعد ہی انتباہ کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی جہاں تک ملکی معیشت کی صورتحال کا تعلق ہے اور خراب معیشت کے ملک و قوم پر منفی اثرات کی جوصورتحال ہے یہ کوئی پوشیدہ امر نہیں اس سے پوری قوم آگاہ ہے اور تشویش کا شکار ہے ۔ملکی مفاد کا تقاضاصرف انتباہ نہیں بلکہ اس حوالے سے قابل عمل تجاویز پیش کرکے تعاون اور ہم آہنگی کی فضاء پیدا کرکے ملکی معیشت کو سنبھالا دینا ہے ۔جاری حالات میں حکومت تن تنہا ان حالات کا کامیابی سے مقابلہ کرنے سے عاجز نظر آتی ہے اور اس امر کا شدت سے احساس بڑھتا جارہا ہے کہ ملکی معیشت کو سہارا دینے کے لئے ملک میں داخلی اور سیاسی استحکام کے لئے مشترکہ جدوجہد کی جائے ۔جن عوامل کی سابق وزیر اعظم نے نشاندہی کی ہے ان حالات سے نمٹنے میں ان کے حصے کی ذمہ داری کا تقاضا ہے کہ تمام تر سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر ملک کو معاشی مسائل سے نجات دلانے کے لئے پوری طرح تعاون کی فضاء پیدا کی جائے تاکہ اعتماد کے ساتھ فیصلے کئے جا سکیں اور کاروبار حیات چل پڑے ۔

مزید پڑھیں:  فیض آباد دھرنا ، نیا پنڈورہ باکس