مہنگائی کا پیٹرول بم

حکومت کی جانب سے ایک ہفتے کے اندر پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں60روپے فی لیٹر اضافے کے بعد حکومت پر سخت تنقید فطری امر ہے۔ مشیر خزانہ مفتاح اسماعیل کی جانب سے ایک ہنگامی پریس کانفرنس میں اعلان کیے گئے فیصلے کو صارفین عوام بجاطور پر پیٹرول بم قرار دے رہے ہیں۔اس فیصلے کے فوری اثرات سے مہنگائی کی تباہ کن لہر آئے گی جس سے نہ صرف عوام بلکہ کاروبار بھی متاثر ہوں گے۔دریں اثناء پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ہوشرباء اضافہ کے ساتھ ہی نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی(نیپر)نے بجلی کے بنیادی ٹیرف میں7روپے91پیسے فی یونٹ اضافے کی منظوری دے دی ہے۔ستم بالائے ستم یہ کہ 25 روپے یونٹ بجلی ہونے کے باوجود بھی بجلی دستیاب نہیںشہری علاقوں میں8سے10گھنٹے اور دیہی علاقوں میں لوڈشیڈنگ کا دورانیہ12سے 14گھنٹے تک پہنچ گیا ہے۔آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کی کامیابی اور معیشت کی بہتری کے لئے جن سخت فیصلوں کی ضرورت تھی اور گزشتہ حکومت کے جو فیصلے نافذ ہونے کے بعد واپس لئے گئے تھے ان کی بحالی کا سخت فیصلہ بھاری سیاسی قیمت کی ادائیگی پر بالاخر حکومت کو کرنا پڑا ہے ۔ صورتحال یہ ہے کہ پہلے سے مسائل کا شکار عوام مہنگائی کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں ان پر مزید بوجھ ڈالنا ان کی اکھڑتی ہوئی سانسوں کی رفتار کو تیز کرنے کے مترادف ہے پیٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں اضافہ صرف ان دو اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ لے کر نہیں آتا بلکہ ٹرانسپورٹ سے لے کر زرعی مشینری غرض ہر چیز جس میں ایندھن کا براہ راست استعمال ہوتا ہے یا بالواسطہ ہر چیز پر اس کا اثر پڑتا ہے اور ہر چیز مہنگی ہو جاتی ہے صرف مہنگی نہیں ہوتی بلکہ جس شرح سے اس شعبے پر اثرات مرتب ہوتے ہیں کوشش ہوتی ہے کہ اس سے دگنا وصولی ہو جائے۔ وزیراعظم کی جماعت نے گزشتہ دور حکومت میں مہنگائی مکائو مارچ کیا تھاساتھ ہی ساتھ جے یو آئی نے بھی مہنگائی کے خلاف بھر پور طریقے سے احتجاج ریکارڈ کرایا تھا لیکن اب جبکہ ماضی قریب میں حکومت پر سخت تنقید کرنے والی سیاسی جماعتیں خود اقتدار میں ہیں اور فیصلے کا اختیار رکھتی ہیں تو ان کے فیصلوں اور رخصت شدگان کے فیصلوں اور اقدامات میں کوئی زیادہ فرق نہیں۔موجودہ حکومت صرف یہ الزام لگا کر بری الذمہ نہیں ہو سکتی کہ یہ سارے ٹیکے آئی ایم ایف اور سابق حکومت کے تھے یہ بات اپنی جگہ لیکن جو سب سے بڑا سوال یہ اٹھ رہا ہے اور سوال اٹھانے والے حکومت مخالفین نہیں بلکہ آزادتجزیہ نگار اور ایک دائرے میں رہ کر موجودہ حکومت کے حامیوں کی بڑی تعدادبھی یہ سوال شد و مد سے اٹھا رہی ہے کہ عوام کو تو کند چھری سے ہر دور میں ذبح کیا جاتا رہا موجودہ حکومت نے ایک ہفتے کے اندر پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 60 روپے کا ریکارڈ اضافہ عام آدمی کے لئے ناقابل برداشت ہو چکا ہے اور بجلی کی قیمتوں میں بھی آٹھ روپے فی یونٹ کا ا ضافہ لاگو ہونے والا ہے جس کے بعد بجلی کی فی یونٹ قیمت 25 روپے ہو جائے گی ا س ساری صورتحال میں سارا بوجھ عام آدمی پر پڑ رہا ہے اشرافیہ پر نہیں اقوام متحدہ کے ادارے یو این ڈی پی کی ریسرچ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں اشرافیہ کو 2600ارب روپے کی سالانہ سبسڈی دی جاتی ہے اس سبسڈی کو ختم کیا جانا چاہئے عوام تو 70سال سے قربانی دے رہی ہے ا شرافیہ کو دی جانے والی سبسڈی کا خاتمہ کیا جائے توعام آدمی کے بوجھ میں کمی لانا ممکن ہو گامگرمشکل امر یہ ہے کہ حکومت خود پر اوران پر بوجھ ڈالنے کے لئے تیار نہیں البتہ سندھ حکومت نے اس ضمن میں احسن فیصلہ کیا ہے جس کی مرکزی اور تینوں صوبوں کی حکومتوں کو تقلید کرنی چاہئے ۔خیبر پختونخوا کی بھاری مقروض حکومت کو سندھ حکومت کی پیروی میں مزید وقت ضائع نہیں کرنا چاہئے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کے حکمران اور اشرافیہ اپنی عیاشیوں کی قربانی کب دیں گے اس ضمن میں ان کے پاس زیادہ وقت نہیںجب عوام کی قوت برداشت جواب دے جائے گی تو اشرافیہ اور حکمران سمیت بیورو کریسی اور دیگر مراعات یافتہ طبقات کی گریبان پر عوام ہاتھ ڈالنے سے دریغ نہیں کریں گے ۔اس کی درجنوں مثالیں ہیں جن کااعادہ کرنے کی ضرورت نہیں گزشتہ حکومت پر جو بڑا الزام لگایا جارہا تھا وہ مہنگائی میں بے تحاشا اضافہ تھا بہرحال وہ حکومت اب رخصت ہو چکی ہے مگرنئے وزیر اعظم کی شیروانی عوام کو بہت مہنگی پڑ رہی ہے اگر حکومت کو عوامی غیظ و غضب سے خود کو بچانا مقصود ہے تو اشرافیہ اور حکمران طبقے کے حوالے سے بھی سخت فیصلے کی ضرورت ہے۔موجودہ حکمرانوں کی سابق حکومت پر تنقیداور بیانات کی منافقت اب عوام کے سامنے واضح طور پر آچکی ہے اور ان کے اپنے الفاظ ان کے گلے کا پھندا بن رہے ہیں۔اس ساری صورتحال میں تحریک انصاف کی قیادت کی جانب سے ماضی کے سارے حساب چکانے کا زریں موقع ہاتھ آگیا ہے اب تحریک انصاف اگر دیگر تمام معاملات کو ایک طرف رکھ کر مہنگائی کے موثر اور یک نکاتی ایجنڈے کے ساتھ عوام سے رجوع کرے تو حکومت پردبائو ڈالنے میں کامیابی تقریباً یقینی ہے دیکھا جائے تو مہنگائی سے تنگ عوام اب سیاسی اور جماعتی وابستگیوں سے بالاتر ہو کرحالات پر تشویش کا اظہار اور مہنگائی پر تنقید کرتے نظر آتے ہیں اور یہ واحد چیز ہے جس پر حکومت کے حامیوں اور مخالفین میں اتفاق نظر آتا ہے صورتحال کی سیاسی قیمت بہرحال حکومت کو چکانی پڑے گی۔اب یہ مطالبہ بڑھتا جارہا ہے کہ جن اعلیٰ شخصیات جس میں دفاع ‘ عدلیہ اور بیوروکریسی سمیت سبھی شامل ہیں ان کو مفت پیٹرول کی سہولت ختم کی جائے ‘ سرکاری ٹرانسپورٹ کا استعمال محدود کیا جائے اور اس کے غیر قانونی استعمال کا پوری طرح خاتمہ کیا جائے ۔دس ایکڑ سے زرعی اراضی پر ‘پرتعیش مکانات پر ایک مرتبہ کا بھاری ٹیکس عائد کیا جائے اور 18سو سی سی سے بڑی گاڑیوں پر بھی مزید ٹیکس لگایا جائے پیٹرول کے استعمال میں کفایت شعاری کے مزید راستے تلاش کئے جائیں خاص طور پرحکومتی اخراجات میں کمی لائی جائے غیر ترقیاتی اخراجات کا ازسرنو جائزہ لیا جائے اور جتنا ممکن ہو سکے انقلابی اقدامات کے ذریعے عوام کا بوجھ کم کیا جائے ۔مہنگی بجلی اورلوڈ شیڈنگ کے مسئلے پرقابو پانے کے لئے شمسی توانائی کوفروغ دیا جائے اور لوگوں کو شمسی توانائی کا نظام لگانے کے لئے بلاسود قرضے دیئے جائیں۔

مزید پڑھیں:  اک نظر ادھربھی