چیف جسٹس گلزاراحمد خان نے کورونا وائرس سے متعلق ازخود نوٹس کے دوران حکومتی اقدامات پر جو سوالات اُٹھائے ہیں اور فنڈز خرچ کرنے کے طریقہ کار اور ریلیف کے عمل کے شفاف نہ ہونے کی جو رائے دی ہے، اس پر حکومت کو سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ چیف جسٹس نے چند ہزار مریضوں اور ان کیلئے انتظامات پر بھاری اخراجات کا بھی سوال اُٹھاتے ہوئے کہا کہ پیسہ نجانے کہاں خرچ ہورہا ہے۔ انہوں نے زکوٰة اورمزارات کی رقم کے خرچ کا بھی استفسار کرتے ہوئے وفاقی حکومت کو زکوٰة فنڈ کے آڈٹ کی ہدایت کردی۔ چیف جسٹس کے یہ خیالات نہ تو حزب اختلاف کے کسی سرگرم رکن کی تنقید اور الزام ہیں اورنہ ہی ان کو علم اور معلومات نہ رکھنے والے کسی عام آدمی کی بے جا تنقید گردان کر صرف نظر کرنے کی گنجائش ہے، البتہ یہ صرف اس دور حکومت اور موجودہ وقت کا مسئلہ نہیں بلکہ ہر دور حکومت میں بالخصوص قدرتی آفات کے دنوں میں امدادی رقم اور ساز وسامان کی شفافیت سے تقسیم اور ضرورتمند افراد تک امدادی اشیاء اور رقم کی تقسیم شکوک وشبہات کا باعث رہے ہیں۔ امدادی اشیاء میں بڑے پیمانے پر خورد برد اور امداد سے محرومی کی بڑے پیمانے پر شکایات کی کسی دور میں جامع تحقیقات کی ضرورت کسی نے محسوس نہیں کی، یہی وہ نکتہ ہے جسے چیف جسٹس نے اُٹھایا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ حکومتی اقدامات کی شفافیت پر اس سطح کی انگشت نمائی کے بعد اب یہ حکومت کا فرض ہے کہ وہ ازخود تحقیقات کے بعد رپورٹ عوام کے سامنے لائے تاکہ حکومت پر کوئی الزام نہ آئے، علاوہ ازیںچاروں صوبوں میں امداد کی تقسیم کے معاملات بھی صوبائی سطح پر جائزے کے متقاضی ہیں۔ وفاقی حکومت کو صوبوں سے بھی اس حوالے سے مفصل رپورٹ طلب کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومت اگر فنڈز کے استعمال کے دنوں ہی سے شفافیت اور شکایات پر توجہ دے تو بعد میں کوئی بڑا سکینڈل نہیں آئے گا اور حقداروں تک امداد کی فراہمی کی بھی صورت پیدا ہوگی، بعد ازاں وفاق اور صوبوں کی جانب سے کئے گئے اخراجات کا اگر خصوصی آڈٹ کرایا جائے اور آزادانہ طور پر رقوم کے اخراجات کا جائزہ لیا جائے تو دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہو سکتا ہے۔ بدقسمتی سے ایسا کرنے کی ریت نہیں جس کی وجہ سے امدادی رقم پر ہر سطح پر ہاتھ صاف کرنے میں تردد نہیں کیا جاتا۔ بہرحال اُمید کی جا سکتی ہے کہ موجودہ حکومت میں ایسا نہیں ہونے دیا جائے گا اور ماضی کی طرح امدادی رقوم کی بندر بانٹ نہیں ہوگی اور جو بدانتظامیاں اور بدعنوانی کی شکایات سامنے آئیں گی اس کا بروقت نوٹس لیکر ازالہ کرنے کی پوری کوشش کر کے مثال قائم کی جائے گی۔ جہاں تک زکوٰة اور مزارات سے حاصل ہونے والی رقم کا تعلق ہے بد قسمتی سے اس کا کوئی آڈٹ اور پوچھ گچھ کرنے کا ٹھوس نظام موجود نہیں، زکوٰة کمیٹیوں اور اس کی تقسیم کے عمل میں سیاسی مداخلت کے باعث زکوٰة کے حقیقی مستحق لوگ زکوٰة کی تقسیم کی فہرست تک میں نہیں آتے۔ مزارات سے حاصل ہونے والی رقم ویسے بھی بے حساب ہوتی ہے، جب آنے والی رقم کا کوئی ریکارڈ نہیں تو باقی کے معاملات کتنے شفاف ہوں گے اس کا اندازہ ہی کیا جا سکتا ہے۔ وفاقی حکومت کو زکوٰة فنڈ کے آڈٹ کی جو ہدایت کی گئی ہے اس کی رپورٹ جب آئے گی تب صورتحال واضح ہوگی۔ وطن عزیز میں زکوٰة عطیات اور مزارات سے آنے والی رقوم ہی کا اگر درست استعمال یقینی بنایاجائے تو حکومت کو پلے سے کچھ خرچ کرنے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی۔ ایک ایساٹھوس لائحہ عمل وضع کرنے کی ضرورت ہے کہ مختلف ذرائع سے حاصل ہونے والی رقوم دیانتدار ہاتھوںمیں دی جائے اور حکومت کیساتھ ساتھ ایک بورڈ تشکیل دے کر اس کی نگرانی ومشاورت سے تقسیم کا عمل ہو تو بہتری کی توقع کی جا سکتی ہے۔