2 151

آٹا چینی سکینڈل’ نیب کا امتحان

آٹا اور چینی سکینڈل کا نیب کا نوٹس اور ایک ماہ میں تحقیقات مکمل کر کے رپورٹ جمع کرانے کی ہدایت وہ پہلا قانونی قدم ہے جس کا فیصلہ کر کے نیب نے حکمران جماعت سے وابستہ افراد کے احتساب سے احتراز کے اعتراضات کا ابتدائی جواب دیا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق چیئرمین نیب نے چینی آٹا بحران کو بجا طور پر پرائم میگا سکینڈل کا نام دیا ہے۔ خیال رہے کہ گزشتہ دنوں وفاقی تحقیقاتی ایجنسی کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا تھا کہ ملک میں چینی بحران کا سب سے زیادہ فائدہ حکمران جماعت اور اس کے اتحادی جماعت نے اُٹھایا تھا۔ رپورٹ آنے کے بعداس کے فرانزک آڈٹ اور مزید چھان بین کے اعلان پر حزب اختلاف نے الزم لگایا تھا کہ اتنے بڑے سکینڈل کی تحقیقاتی رپورٹ سامنے آنے کے باوجود حکومتی اراکین کیخلاف کوئی ایکشن نہیں لیا جارہا ہے جبکہ اپوزیشن کیخلاف ابتدائی تحقیقات پر ہی ایکشن لیا جاتا ہے۔ وفاقی تحقیقاتی ادارے سے اس بات کی توقع نہیں کی جاسکتی کہ انہوں نے بااثرحکومتی شخصیات کے حوالے سے تحقیقات میں لاپرواہی برتی ہوگی چونکہ یہ ایک آزادانہ تحقیقاتی رپورٹ ہے اسلئے اس کے شواہد کی بنیاد پر جتنا جلد ممکن ہو سکے نیب کو تمام قانونی پہلوئوں کا گہرائی سے جائزہ لینے کے بعد ملزمان کی گرفتاری میں تاخیر نہیں کرنی چاہئے۔خود حکومت کی جانب سے تحقیقات اور اپنوں کے ملوث ہونے کے انکشاف کے بعد حزب اختلاف کے ان الزامات کو تقویت ملتی ہے کہ حکومت بلا تخصیص احتساب کی دعویدار تو ہے لیکن عملی طور پر معاملات برعکس ہیں۔ نیب کے پاس یہ ایک اچھا موقع ہے کہ وہ خود کو واقعی آزاد اور خود مختار ادارہ ثابت کرے اور جانبدارانہ کردار اور قول وفعل کے تضاد کی نفی کرے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ نیب نے حزب اختلاف کے اراکین اور شخصیات کے حوالے سے جومعیار مقرر کیا ہے اس سے کہیں بڑھ کر شوگر وگندم سکینڈل میں ملوث عناصر کیخلاف کارروائی کا جواز میسر ہے۔ حکومت اور عوام دونوں کی جیب پر منصوبہ بند طریقے سے ڈاکہ ڈالنے والے کسی اور رعایت کے مستحق نہیں ان کیخلاف جتنا جلد ممکن ہوسکے کارروائی ہونی چاہئے لیکن ضروری قانونی کارروائی اور ہوم ورک جتنا جلد ممکن ہوسکے اس کے تقاضے پورے کئے جائیں اور مضبوط کیس بنا کر شواہد کیساتھ عدالت میں ثابت کرنے کی سعی کی جائے تاکہ کمزور احتساب کا الزام نہ لگے اور نہ ہی ملوث عناصر بچ نکلیں۔ وفاقی تحقیقاتی ادارے کی مرتب کردہ رپورٹ کے مطابق ان عناصر کو ایف آئی اے گرفتار کر کے مزید تحقیقات اور کارروائی کرسکتی ہے، اس پر بھی غور ہونا چاہئے۔
تیل کی قیمتوں میں کمی کے ثمرات عوام کو جلد دیئے جائیں
دنیا بھر میں کورونا کی وباء اورلاک ڈائون کے باعث تیل کی منڈی میں جو انحطاط آیا ہے اس کے اثرات سے خام تیل کی قیمت عالمی مارکیٹ کی تاریخ میں ریکارڈ کمی کی صورت میں سامنے آئی ہے۔ تیل ذخیرہ کرنے کی گنجائش میں کمی کے باعث تیل پانی سے بھی سستا ہوگیا ہے، پاکستان چونکہ سعودی عرب سے تیل خریدتا ہے اسلئے امریکی آئل مارکیٹ کریش کرجانے کے براہ راست اثر شاید نہ پڑے مگر روس اور سعودی عرب کے درمیان تیل کی قیمتوں پر ہونے والی کشیدگی کے باعث پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی سے پاکستان بھی مستفید ہوگا۔ ملک میں پیٹرولیم مصنوعات کے استعمال میں کمی آنے سے پیٹرول کی ضرورت بھی کم ہوئی ہے۔ ماہرین کے مطابق اس کا فائدہ ان ممالک کو ہوگا جو جتنا جلد لاک ڈائون ختم کرکے کاروبار حیات بحال کرتے ہیں۔ خام تیل کی قیمتوں میں تاریخی کمی کا براہ راست فائدہ بین الاقوامی سطح پر صارفین کو تو پہنچ رہا ہے لیکن اس شرح سے نہیں جس شرح سے تیل کی قیمتیں گری ہیں۔ پاکستان میں تیل کی قیمتوں میں ابھی اس شرح کی کمی نہیں آئی بلکہ معمولی کمی کی گئی ہے اور مزید کمی کا بہرحال عندیہ دیا گیا ہے۔ اس کمی کے فائدے کو جلد سے جلد عوام تک پہنچانے کی ضرورت ہے۔ اگرچہ تیل کی قیمتوں میں کمی کے عالمی سطح پر اثرات مثبت نہیں لیکن پاکستان میں حکومت کے پاس یہ اچھا موقع ہے کہ وہ تیل کی قیمتوں میں کمی کے باعث پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم کر کے مہنگائی میں کمی لانے کی کوشش کرے۔ پاکستان سعودی عرب سے تیل خریدتا ہے اورعموماً کنٹریکٹ کافی ماہ پہلے کر لیا جاتا ہے اور قیمت بھی طے ہوتی ہے، اس ضمن میں کوشش ہونی چاہئے کہ تیل کی قیمتوں میں کمی کی عالمی صورتحال کا فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کی جائے۔ حکومت میں شامل افراد اور خود وزیراعظم ماضی میں تیل کی قیمتوں کے حوالے سے جو مؤقف رکھتے تھے اس پر عملی طور پر عملدرآمد کیلئے اب ان کے پاس سنہرا وقت ہے تاکہ عوام کو ریلیف دیا جا سکے۔ تیل کی قیمتوں میں کمی سے ٹرانسپورٹیشن کی لاگت میں کمی آئے گی جس کا فائدہ رمضان المبارک میں اشیائے صرف اور پھل وسبزیوں کی قیمتوں میں کمی کی صورت میں عوام کیلئے ریلیف ثابت ہوگا۔
تہرے قتل کا افسوسناک واقعہ
روایتی جرگوں اور علمائے کرام سے تنازعات کا تصفیہ کرنے کی روایت کو عدالت عظمیٰ نے اس بناء پر ممنوع قرار دیدیا تھا کہ اس میں فریقین نے تصادم اور اراکین جرگہ کے تحفظ کے اقدامات نہیں ہوتے اور بسا اوقات افسوسناک واقعات رونما ہوتے ہیں۔ تھانوں میں مصالحتی عدالتوں کی موجودگی میںغیرقانونی جرگوں اور انفرادی طور پر تنازعات کا تصفیہ اب بھی معمول ہے، اس طرح کے ایک واقعے میں مخالف فریق کے دو افراد سمیت ایک عالم دین کے قتل کا جو افسوسناک واقعہ ہوا ہے اس کے بعد علمائے کرام اور تنازعات کے فریقوں کو اس قسم کے مزید خطرات مول لینے سے اجتناب کی ضرورت ہے جبکہ علاقہ پولیس کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس طرح کے پرخطر اجتماعات کو اطلاع ملنے پر روکے۔ تنازعات کے فریقوں کیلئے تھانوں میں قائم مصالحتی عدالتوں سے رجوع کا مناسب فورم موجود ہے اس سے رجوع کرنے سے بہت سے تنازعات مختصر وقت میں اور آسان طریقے سے حل ہورہے ہیں اور اگر فریقین علمائے کرام ہی سے شرعی فیصلہ لینے پر بضد ہوں تو پھر یہ علمائے کرام کی ذمہ داری ہے کہ وہ فریقین کو غیر مسلح ہو کر پیش ہونے اور ہر فریق کے ایک ایک فرد کو آنے کی ہدایت کریں۔ پولیس نے فائرنگ اور تہرے قتل میں ملوث افراد کیخلاف بروقت کارروائی کرکے اپنی ذمہ داری نبھائی ہے، اب مقدمے کی تفتیش اور قانونی تقاضوں کے مطابق عمل کرنا باقی ہے تاکہ ملزمان کو عدالت سے قرار واقعی سزا دلانے کی ذمہ داری بھی بطریق احسن پوری ہو۔

مزید پڑھیں:  سلامتی کونسل کی قراردادکے باوجوداسرائیل کی ہٹ دھرمی