1 105

کچھ ذمہ داری عوامی بھی ہے

شنید تو یہ تھی کہ موسم سرما جانے پر کرونا کی وباء سے جان چھوٹ جائے گی مگر اس میں تو روزبروز بڑھوتی ہوتی جارہی ہے جو تازہ ترین اعداد وشمار پاکستان کے حوالے سے دستیاب ہوئے ہیں اس کے مطابق 21اپریل تک پاکستان میں کرونا کے مریضوں کی تعداد 9216 ہو چکی تھی جبکہ اموات کے اعداد 192 اور صحت یاب ہونے والے 2066 ہیں۔ ان اعداد وشمار پر نظر پڑنے سے یہ حوصلہ تو ملتا ہے کہ صحتیاب ہونے والوں کی شرح اموات کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے لیکن جس تیزی سے مرض میں پھیلاؤ کا رجحان ہے وہ بہت تشویشناک ہے، اس کے علاوہ بھی کئی عوامل غورطلب ہیں۔ اس میں سب سے اہم یہ ہے کہ ”ہم کب سنبھلیں گے” وہ اس طرح جہاں حکومت کی ذمہ داریاں ہیں وہاں عوام پر بھی کچھ احساسی فرائض لا گو ہوتے ہیں، کرونا کو کنٹرول کرنے کا حکومت کا اب تک جو سب سے بڑا اقدام سامنے آیا وہ بندش فعالیت (لا ک ڈاؤن) ہے جس کا مقصد واحد یہ تھا کہ لوگ گھروں تک محدود ہو جائیں تاکہ یہ وباء مزید نہ پھیلنے پائے اور اب تک جو ہو گیا ہے اس کو قابو کرنے کیلئے آگے بڑھا جائے مگر پھیلنے کے اقدامات یہ کہہ رہے ہیں کہ عوام کی جانب سے توقع کے مطابق حکومت کو سہارا نہ مل پایا ہے، مرض ہے کہ بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ بندش فعالیت سے حکومت یہ حاصل کرنا چاہتی تھی کہ لوگ محدود ہو جائیں جو نہیں ہو سکا بلکہ اس کا اُلٹ ہوا وہ اس طرح کہ بندش فعالیت کیساتھ ہی لوگوں نے گھروں میں بیٹھنا گوارہ نہیں کیا بلکہ دکانیں تو بند کردیں، دفاتر کی تالہ بندی بھی ہوگئی مگر خود بازاروں میں نکل آئے اور بند دکانوں کے تھڑوں پر براجمان ہوکر گپ شپ کی ٹولیاں سجا دیں، گویا دکاندار جو اپنی اپنی دکانوں میں مصروف کاروبار تھے وہ اب فارغ الوقت ہو کر سماجی سرگرمیوں میں یوں مصروف ہوئے کہ کندھے سے کندھا جڑ گئے اور یوں انہوں نے کرونا کی پرورش میں مددگاری شروع کردی، ان کی عقل سلیم میں یہ نہیں آیا کہ یہ وباء کاروبار کرنے سے نہیں پھیلتی بلکہ سماجی طور پر باہم میل ملاپ سے فروغ پاتی ہے، سرکاری ہرکاروں کی توجہ بازاروں میں بھیڑ بھاڑ پر نہیں گئی بلکہ ان کی نظریں اس پر لگی ہوئی ہیں کہ کس دکان کا شٹر گرا ہوا ہے کس کا اُٹھا ہوا ہے جبکہ ضرورت اس امر کی تھی کہ اس رجحان کو ختم کیا جاتا کہ لوگ ایک دوسرے سے پرے رہیں قریب تر نہ ہوں۔ جو مناظر بازاروں میں دیکھنے کو مل رہے ہیں اس سے بہتر تو یہ تھا کہ دکانیں کھلی رہتیں کم ازکم دکاندار اپنی دکانوں کے اندر ہی محدود ہو رہتے اور گاہک آتے جاتے تاہم احتیاطی تدابیر کیساتھ۔ اس کے علاوہ ذرائع ابلاغ کے معروف ادارے بی بی سی نے نوٹس لیا کہ کرونا سے مرنے والوں کی شرح پاکستان کے دوسرے حصوں کی بہ نسبت صوبہ پختونخوا میں زیادہ ہے، اعداد وشمار کہہ رہے ہیں کہ پاکستان میں اموات کی شرح دوفیصد سے کچھ ہی زیادہ ہے جبکہ صوبہ کے پی کے میں اموات کی شرح دیگر صوبوں کے مقابلے میں دگنی سے بھی زیادہ ہے۔ کے پی میں منگل کی شب تک کرونا وائرس سے متاثرین کی تعداد 1276 ہوگئی تھی جبکہ شرح اموات 5فیصد سے زیادہ قرار پائی تھی، آخر اس کی وجہ کیا ہے؟ بظاہر تو یہ ہی لگتا ہے کہ احتیاط کا فقدان ہے اور علاج معالجہ کی سہولت کی کمی ہے، جب بی بی سی کے نمائندے نے صوبائی وزیرصحت تیمور سلیم جھگڑا سے جواز معلوم کیا تو ان کا فرمانا تھا کہ وائرس سے متاثرہ افراد اس لئے نہیں مر رہے ہیں کہ صوبے میں صحت کی سہولیات نہیںہیں۔ وزیرموصوف کے مطابق صوبے میں ایسے افراد کی تعداد زیادہ ہے جو چھپے ہوئے ہیں اور یا اب تک سامنے نہیں آرہے ہیں اس کے علاوہ انہوں نے ایک وجہ یہ بھی بتائی کہ کے پی میں بیرون ملک سے واپس آنے والوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے، ان کے مطابق گزشتہ تین ماہ کے دوران ساٹھ ہزار افراد بیرون ملک سے لوٹے ہیں جبکہ پنجاب اور سندھ میں بیرون ملک سے واپسی چالیس تا پچاس ہزار ہے، ممکن ہے کہ یہ بات درست ہو لیکن اعداد وشمار کی شرح مطمئن نہیں کرتی، البتہ ایک عجب بات وزیرصحت نے یہ کہی جو فکرانگیز بھی ہے، ان کا ادعا یہ تھا کہ لوگ چھپ رہے ہیں، کیوں چھپ رہے ہیں اس کی کوئی وضاحت یا جواز نہیں بتایا یہ حیرت انگیز بات ہے کہ جب ایک مریض ہے تو اس کو علاج کی فکر ہوگی یا علاج سے فرار اختیار کرے گا۔ اب تک جو اموات ہوئی ہیں ان کے لواحقین کا یہ ہی رونا دیکھنے کو ملا ہے کہ ہسپتالوں میں سہولیات کا فقدان ہے، انتظامات درست نہیں بلکہ ہسپتال جاکر مریض زیادہ شدت سے مرض کا شکار ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے نتائج منفی آرہے ہیں، پشاور کے گلشن کالونی کا رہائشی تھا اس کے خاندان کی پی ٹی آئی سے گہری وابستگی ہے، ان کی ایک ہمشیرہ مہوش صاحبہ جو ایک تجربہ کار قانون دان ہیں وہ اور ان کا خاندان بھی اسی لاپرواہی کی بنا پر گہرے صدمے سے دوچار ہوا، ان کا جواں سال بھائی فیصل جس کے دوچھوٹے چھوٹے معصوم بچے بھی ہیں اسی لاپرواہی کا شکار ہوا اور اس کو کرونا نے نگل لیا، فیصل تو بیرون ملک سے نہیں آیا تھا، علاوہ ازیں گلبہار نمبر4 کے علاقہ جاوید ٹاؤن میں ایک صاحب کرونا کا شکار ہو کر گھر پڑے ہوئے ہیں، بتایا جاتا ہے کہ ضلعی انتظامیہ اور ہسپتال کے عملہ نے ان کو گھر پر ہی رہنے کی اجازت دیدی ہے جبکہ اسسٹنٹ کمشنر کی جانب سے ایک نوٹیفکیشن بھی جاری ہوا کہ اس علاقہ کو سیل کر دیا گیا ہے، یہ اقدام صرف کاغذات کی حد تک ہے، جاوید ٹاؤن میں کوئی علاقہ سیل نہیں کیا گیا بلکہ متاثرہ شخص کے گھر پر پیرا بیٹھا دیا گیا ہے باقی متاثرہ گھر کی گلی میں آمد ورفت کا سلسلہ جاری وساری ہے اور باقی سرگرمیاں بھی حسب معمول ہو رہی ہیں۔ متاثرہ گھر کے پڑوس میں مسجد واقع ہے جہاں نمازی باقاعدگی سے آجا رہے ہیں۔ علاقے میںکوئی احتیاطی تدابیر اختیار نہیں کی گئی ہے اور نہ سپرے کا باقاعدہ کوئی بندوبست کیا گیا ہے، ہاں البتہ اتنا ہے کہ متاثرہ گھر کے دروازے پر ایک بندوق بردار پولیس کا سپاہی بٹھا دیا گیا ہے، ایسے واقعات شہر میں کئی جگہ ہیں، پھر وزیرصحت کا یہ کیسے کہنا ہے کہ تمام ضروری اقدامات مقدم کر رکھے ہیں۔ اگر کسی کو خاص سہولت دی گئی ہے تو دیگر مریضوں کو ایسی سہولیات کیوں میسر نہ کی گئیں یہ بھی ایک سوال ہے۔ پھر جن علاقوں میں ایسے مریضوں کو رکھا گیا ہے تو اس علاقے کے دیگر مکینوں کی حفاظت کیلئے اقدامات کیوں نہیں کئے گئے ہیں۔

مزید پڑھیں:  میزائل' امریکی پابندی اور وزارت خارجہ