معاشی راہداریوں سے مکمل طور پر مستفید ہونے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنی آبادی میں ہنر مندی اور مہارتیں حاصل کر نے کی حوصلہ افزائی کریں۔ البتہ آبادی کی بیچ وسائل، دولت، تکنیکی مہارتوں کی غیر منصفانہ تقسیم اور دستیابی طبقہ اشرافیہ کو ان راہداریوں کو معاشی استحصال کے لیے استعمال کرنے کا جواز فراہم کرتا ہے۔ یوں ان راہداریوں کا اصل مقصد منافع بڑھانے کی دوڑ میں کہیں گم ہو کر رہ جاتا ہے۔ پاک چین اقتصادی راہداری بھی ایسا ہی ایک منصوبہ جس کے تحت ملک بھر میں کئی بڑے پراجیکٹس پر کام ہو رہا ہے۔ یہ منصوبہ پاکستان سمیت پورے ایشیاء کی تاریخ کا سب سے بڑا منصوبہ ہے اور اس سے پاکستان اور چین کی اقتصادی ترقی کے حوالے سے قوی امیدیں وابستہ ہیں۔ امید کی جاتی ہے ان منصوبوں کی تکمیل سے ایسا صنعتی انقلاب برپا ہو گا جو پاکستان کی معیشت کورواں سال کے اختتام تک تین گنا تک بڑھا دے گا۔ اس منصوبے کے قرب و جواہر اور دور دراز بسنے والے لوگ اس منصوبے سے کیسے استفادہ کرتے ہیں اور کس طرح اس کی مدد سے اپنے کاروباری منافعوں میں اضافہ کرتے ہیں ،ا س بات کا زیادہ تر انحصار ان کی اپنی مہارت اور مزاج پر ہوگا۔ مثال کے طور پر فیصل آبادجیسا صنعتی مرکز چین اور دیگر ممالک میں کپڑے برآمد کرسکتا ہے جبکہ گلگت بلتستان خشک میوہ جات سے اپنے علاقے کی معیشت میں بہتری لا سکتا ہے۔ شمالی علاقہ جات میں سیاحت کے فروغ سے بھی اچھے نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں ۔ مگر ان وسائل اور ثمرات کوپاکستان کی آبادی تک منصفانہ اور مساوی بنیادوں پر پہنچانا حکومت اور نجی شعبے کی مشترکہ اور مستعدی کے ساتھ کی گئی کاوشوں سے ہی ممکن ہو سکے گا ۔ وگرنہ وفاق کے صوبوں پر نا اہلی کے الزمات اور مداخلت اور صوبوں کا وفاق سے عدم تعاون کے شکووں کا سلسلہ جاری رہا تو یہ نجی شعبے کی حوصلہ شکنی کے ساتھ ساتھ پاکستان کو حاصل ہونے والے ممکنہ فوائد کا بھی وقت سے پہلے قلع قمع کر دے گا۔ ملک میں کارخانہ داروں پر طرح طرح کے دباو ڈالنا اوربیرون ملک سے مال درآمد کرانے والوںکی حوصلہ افزائی کرنا شرم ناک ہے۔ کارخانہ داروں کے لیے نئے ٹیکس نظام کے تحت محصولات کی ادائیگی اور رقم میں اضافے سے لاگت کے بڑھ جانے کے سبب کاروبار کرنا دو بھر ہو چکا ہے۔ کوئی بعید نہیں کہ سی پیک کی بدولت ان خطوں اور علاقوں میں زیادہ ترقی اور بہتری آئے جو پہلے سے معاشی طور پر بہتر حالت میں ہیں جبکہ بلوچستان جیسے وہ غریب علاقے جہاں سے اس رہداری نے گزرنا ہے، اس کے ثمرات سے کوئی خاص استفادہ نہ کر سکیں۔یہ بھی ممکن ہے کہ منافع کی شرح میں اضافے کی دوڑ، سی پیک سے مقامی آبادی استفادہ نہ کرنے دے۔اس ضمن میں گوادر بندرگاہ کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ سی پیک سے پائیدار اور دیر پا بنیادوں پر فوائدسمیٹنے کے لیے حکومت اور بیوروکریسی کو عارضی پالیسیاںبنانے اور جگاڑ سے کام چلانے کی عادت کو ترک کرنا ہوگا۔ ہمیں ایسی پالیسیاں تشکیل دینا ہوں گی جو دانشمند، جامع اور پائیدار ترقی کے حصول کے لیے کارگر ثابت ہو سکیں اور جن سے تمام عوام فائدہ لے سکے۔
اداروں میں اصلاحات اور بہتر پالیسی سازی معاشی ثمرات پانے اور خطرات سے بچنے کے لیے نہایت ضروری ہو چکی ہے۔ ہمیں مقامی افراد کو ترجیحی بنیادو ںپر روزگار دینے کے مواقع پیدا کرنا ہوں گے اور اس کے ساتھ سی پیک پر کام کرنے والے ہنرمندوں کی فنی تربیت بھی ہمارے ایجنڈے میں شامل ہونی چاہیے۔ اس کے ذریعے ہماری افرادی قوت کی صلاحیتوں میں اضافہ ممکن ہو سکے گا اور آنے والے وقت میں یہ پاکستان کی معاشی ترقی کے لیے کارآمد ثابت ہوں گے۔ چین کے پاس سی پیک کے حوالے سے تمام تر تکنیکی اور مشینی مہارت موجود ہے سو اس منصوبے سے زیادہ منافع بھی قدرتاً وہی کمائیں گے۔ ہمیں بھی اپنے لوگوں کی صلاحیتوں میں اضافے کے لیے تعلیم و تربیت کا اہتمام کرنا ہوگا۔ تکنیکی شعبوں کے ساتھ ہمیں اپنے دانشور طبقوں میں اس حوالے سے دلچسپی پیدا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ ان منصوبو ں کے سماجی اور معاشی ثمرات کا دلجمعی کے ساتھ تجزیہ کر سکیں ۔ عوام کو چینیوں کی مانند باصلاحیت بنانا حکومت کی ذمہ داری ہے کہ ایسا کرنا مستقبل میں معاوضوں میں اضافے اور غربت کے خاتمے میں مدد دے گا۔ اس سب کے ساتھ حکومت کو سماجی طور پر پسے ہوئے طبقات کے لیے ملازمتیں پیدا کرنے پر بھی توجہ کرنا ہوگی۔وقت آچکا ہے کہ اس منصوبے سے تعلق رکھنے والے تمام فریقین مل کر ایک جامع اور مشترک حکمت عملی اپنائی تاکہ ان مواقع سے بھرپور انداز میں فائدہ حاصل کیا جا سکے۔ گوادر کو شاہراہ قراقرم سے ملانے والی مغربی راہداری بلو چستان کے دور افتادہ اور پسماندہ علاقوں کی تقدیر بدل دینے کی صلاحیت رکھتی ہے سو اسے ہمیں ترجیح دینا چاہیے۔ یوں ہمیں اس آبادی تک وسائل اور سہولیات فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں قومی دھارے میں شامل کرنے کا موقع مل سکے گا۔ البتہ مقامی آبادی تک یہ تمام ثمرات پہنچانے کے لیے ایک ہمیں مؤثر منصوبہ بندی کی ضرورت ہوگی۔ اور آخر میں میں یہ تجویز دینا چاہوں گی کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ محصولات سے متعلق ایک ایسی جدید پالیسی متعارف کرائے جس سے ترقی کے در کھل جائیں اور غرباء کے استحصال کا خاتمہ ہو سکے۔ یہی وہ صورت ہے جس کے تحت ہم سی پیک کے ثمرات کو اشرافیہ تک محدود رکھنے کی بجائے عوام تک پہنچانے میں کامیاب ہو سکیں گے۔
(بشکریہ دی نیوز، ترجمہ: خزیمہ سلیمان)
Load/Hide Comments