ہر وقت خاوند کو جلی کٹی نہ سنائیں

ہر وقت خاوند کو جلی کٹی نہ سنائیں

اہل اللہ نے لکھا ہے کہ بیوی میں چار صفات ضرور ہونی چاہئیں۔ پہلی صفت اس کے چہرے پر حیا ہو۔ یہ بات بنیادی حیثیت رکھتی ہے کہ جس عورت کے چہرے پر حیا ہو گا ، اس کا دل بھی حیا سے لبریز ہو گا۔ مثل مشہور ہے چہرہ انسان کے دل کا آئینہ ہوتا ہے (Face is the index of mind)حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ مردوں میں بھی حیا بہتر ہے مگر عورت میں بہترین ہے۔ دوسری صفت فرمائی جس کی زبان میں شیرینی ہو یعنی جو بولے تو کانوں میں رس گھولے ۔ یہ نہ ہو کہ ہر وقت خاوند کو جلی کٹی سناتی رہے یا بچوں کو بات بات پر جھڑکتی رہے۔ تیسری صفت یہ کہ اس کے دل میں نیکی ہو، چوتھی صفت یہ کہ اس کے ہاتھ کام کاج میں مصروف رہیں۔ یہ خوبیاں جس عورت میں ہوں یقیناً وہ بہترین بیوی کی حیثیت سے زندگی گزار سکتی ہے۔

سویڈن میں ایک فیملی میں صرف اس وجہ سے طلاق ہوئی کہ خاوند کچن کے سنک میں آ کر برش کرتا تھا ۔ بیوی اس کو منع کرتی کہ جب باتھ روم کا واش بیسن ہے تو وہاں برش کیا کریں۔ اس نے کہا کہ میں تو یہیں کروں گا ، اس بات پر میاں بیوی میں طلاق ہو گئی۔ بہت جگ ہنسائی ہوئی۔ کاش دونوں عقل سے کام لیتے۔

تحمل اور بردباری نہ ہو تو انسان کی زندگی کبھی بھی کامیاب نہیں گزر سکتی۔ جب گھر کے سب لوگ اکٹھے رہتے ہیں تو آپس میں جھگڑے ہو سکتے ہیں۔ کبھی بیٹا ، بیٹی ماں کی نافرمانی کر سکتے ہیں۔ کبھی ماں بچوں پر سیخ پا ہو سکتی ہے تو مسائل پیدا ہوں گے ، ان مسائل کو وہی حل کر سکتا ہے جو اپنے اندر تحمل مزاجی رکھنے والا ہو۔
مرد کی دوسری بڑی صفت یہ ہے کہ اسے گھر کی ذمہ داریوںکو نبھانے میں نکٹھو اور کام چور نہیں ہونا چاہئے۔ دیکھئے ہمارے لیے اس سے بڑھ کر اور مثال کیا ہو سکتی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم گھر کے کام کاج کرتے تھے۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام وقت کے نبی ہیں ، سفر میں بیوی درد زہ کا شکار ہوئی تو فرمایا کہ بیٹھو میں ابھی جاتا ہوں آگ ڈھونڈنے کیلئے ’’میں تمہارے لیے کہیں نہ کہیں سے آگ ڈھونڈ لائوں تاکہ تمہیں آرام ملے‘‘ اب دیکھئے کہ وقت کے نبی ہیں اور بیوی کی آسانی کیلئے آگ کے انگارے ڈھونڈتے پھرتے ہیں، یہ کتنی بڑی عبادت بنائی گئی جس میں اللہ تعالیٰ کے نبی مصروف ہیں ، اس لیے گھر کا کوئی کام مرد کو کرنا پڑ جائے تو فرار اختیار نہیںکرنا چاہیے۔ جس طرح چھوٹے چھوٹے پتھر مل کر پہاڑ بن جاتے ہیں، اسی طرح چھوٹے چھوٹے مسائل اکٹھے ہو کر اختلافات کے پہاڑ بن جاتے ہیں، دو دلوں کے درمیان دیوار کھڑی ہو جاتی ہے، نتیجہ گھر کی تباہی کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ بعض مرتبہ تو پینتیس پینتیس سال کی ازدواجی زندگی طلاق کی بھینٹ چڑھ جاتی ہے۔

اگر مرد چاہتے ہیں کہ بیوی ہماری خدمت گزار بن کر رہے تو مرد کو بھی بیوی کی ضروریات پوری کرنا ہوں گی، یہ مساوات تب ہی متوازن رہ سکتی ہے کہ مرد اپنی ذمہ داریوںکو نبھائے اور عورت اپنی ذمہ داریوں کو نبھائے۔ شریعت نے دونوں کے درمیان ایک میزان قرار دے دیا ہے۔ میاں کے ذمے ہے کہ وہ عورت کے حقوق ادا کرے اور عورت کے ذمہ ہے کہ وہ مرد کے حقوق ادا کرے۔ اس طرح دونوں پرسکون زندگی گزار سکیں گے، یہی ازدواجی زندگی کا مقصود ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ اس نے تمہارے لیے تم میں بیویاں بنائیں تاکہ تم ان سے سکون حاصل کر سکو۔ اور تمہارے درمیان مودت اور رحمت پیدا کر دی ، سوچنے والوں کے لیے اس میں بڑی نشانیاں ہیں۔ اب قرآن مجید سے یہ ثابت ہوا کہ ازواجی زندگی کا اصل مقصود پیار و محبت سے رہنا اور پرسکون زندگی گزارنا ہے۔ سوچئے جب ہم خود ہی سکون کے پرخچے اُڑانے والے بن جائیں گے تو پھر ازدواجی زندگی کیسے کامیاب ہو گی۔

اچھی اور کامیاب زندگی وہی ہے جس میں خاوند کو بھی سکون ہو اور بیوی کو بھی سکون ہو۔ اگر دونوں میں سے کسی ایک کو بھی سکون نصیب نہ ہو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ کامیاب زندگی نہیں اور آج تو اللہ کی شان ایسا معاملہ بن گیا کہ شاید ہی کوئی خاوند ایسا ہو جو دن میں ایک بار بیوی کی قسمت کو نہ روئے اور شاید ہی کوئی بیوی ایسی ہو جو دن میں ایک بار اپنے خاوند کو نہ کوسے۔ یہ سب ہماری بے علمی اور بے عملی کا نتیجہ ہے، ہم مقصد اصلی کو بھول گئے ، ہم چھوٹی چھوٹی باتوں پر آپس میں جھگڑا کرنے بیٹھ جاتے ہیں ، چھوٹی چھوٹی باتوں کو انا اور ناک کا مسئلہ بنا لیا کرتے ہیں ، یہ غلط ہے اور ہمیں ہوش کے ناخن لینے کی ضرورت ہے۔