نعمتیں پریشانیوں کے کتنی نزدیک ہوتی ہیں

نعمتیں پریشانیوں کے کتنی نزدیک ہوتی ہیں؟

حضرت مالک بن دینار رحمہ اللہ تعالیٰ اپنے مرض الوفات میں یہ فرمایا کرتے تھے اور یہی ان کی زندگی کی آخری گفتگو تھی:
’’نعمتیں، تنگی اور پریشانی کے کتنی قریب ہوتی ہیں کہ ایک دوسرے کے پیچھے چلی آتی ہیں۔ ‘‘ یعنی تنگی کے پیچھے راحت ہی چل رہی ہوتی ہے۔

بعض صالحین کا ارشاد ہے:
’’ہر وہ مصیبت جو تمہارے گھر کا دروازہ کھٹکھٹائے، اُسے دور کرنے میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ حسن ظن کا معاملہ کیا کرو! تمہارا یہ عمل بہت جلد تمہیں اس مصیبت سے نجات دلا کر کشادگی کے قریب کر دے گا۔ ‘‘
یعنی ہر مصیبت میں انسان اللہ تعالیٰ سے شکوے کرنے کے بجائے اُس کی حکمتوں پر ایمان لائے اور یوں سمجھے کہ شاید اسی میں میرے لیے بہتری ہو گی۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
’’جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ کسی آزمائش میں ڈالتا ہے ، ان کے لیے سب سے بہترین عمل یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ پر یقین کرتے ہوئے کشادگی کا انتظار کریں اور آزمائش میں صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں۔ ‘‘

آپ رضی اللہ عنہ کا ایک ارشاد ہے:
’’صبر اور استقامت، نجات کی ضامن ہیں۔ اللہ کی ذات پر بھروسہ کرنے والا کبھی بھی اپنے خیالات پراگندہ نہیں کیا کرتا۔‘‘
’’سختیوں اور مصیبتوں کی مثال ایسی ہے جیسے کھانے سے پہلے بھوک، یعنی شدید بھوک کے بعد کھانے میں لذت بھی محسوس ہوتی ہے۔‘‘

بس یہی حال تکلیفوں اور غموں کا ہے کہ وہ راحت اور سکون سے پہلے بھوک کی مانند ہیں اور ظاہر ہے کہ شدید بھوک میں کھانے کی لذت ہی کچھ اور ہوتی ہے۔
’’سختی اور مصیبت ایک سرمہ ہے، جس سے آپ وہ کچھ دیکھ سکتے ہیں جو آپ نعمت کے ذریعے نہیں دیکھ سکتے۔‘‘