صحت کارڈپرعلاج حرام قرار

صحت کارڈپرعلاج حرام قرار،فتوے نے ابہام پیداکردیا

پشاور(نیوزرپورٹر)پاکستان کی معروف دینی درسگاہ جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹائون نے صحت کارڈپر علاج کی بعض صورتوں کوحرام قراردےنے کافتویٰ جاری کرکے ابہام پیداکردیا ۔

بونیر سے تعلق رکھنے والے شہری امیر رحمن نے جامعہ علوم اسلامیہ کے دارالافتا سے تحریری رابطہ کیا تھا جس میں صحت کارڈ کی شرعی حیثیت کے بارے میں پوچھاگیا تھاکہ یہ انشورنس بیمہ ہے یا نہیں؟ اس سوال پر مفتیان کرام کی جانب سے دئیے گئے تفصیلی جواب میں فتاویٰ شامی، فتاویٰ بزیزی اور فتاویٰ عالمگیری، الاختیار لتعلیل المختار اور جواہر الفتاویٰ کے مختلف فتاویٰ کا حوالہ دیتے ہوئے6مفتیان کرام نے اپنے فتوے میں کہا ہے کہ اس پروگرام سے علاج ناجائز اور حرام ہے اورصاحب حیثیت افرادکے لئے توکسی صورت جائز نہیں۔

فتویٰ میں کہاگیا ہے کہ صحت سہولت پروگرام اور انشورنس کمپنی کے معاہدے کے نکات کی روشنی میں یہ بات عیاں ہے کہ یہ سکیم بھی سود، قمار اور غرر یعنی دھوکہ دہی پر مشتمل ہونے کی وجہ سے ناجائز اور حرام ہے اور یہ بات بھی واضح ہے کہ اس معاہدے کا گناہ حکومت اور انشورنس ادارے پر ہے عوام براہ راست اس میں شامل نہیں ۔

مزید پڑھیں:  امریکہ کو پاکستان میں انسانی حقوق کی صورتحال پر تشویش

اس سکیم میں خرچ کی جانیوالی رقم پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں پر دوقسم کی رقم ہے ایک وہ رقم جو حکومت نے پریمیم کی شکل میں انشورنس کمپنی کو اداکی ہے اور دوسری وہ رقم جو انشورنس کمپنی معاہدے کے تحت اپنی طرف سے خرچ کرنے کی پابندہے۔ فتویٰ کے مندرجات کے مطابق پہلی قسم کا حکم یہ ہے کہ کارڈ ہولڈر غریب ہو یا مالدار دونوں کیلئے حکومت کی اداکردہ پریمیم کے اندر رہ کر اپنا علاج کروانا جائز ہے کیونکہ حکومت کی یہ رقم انشورنس ادارے کے پاس امانت یا قرض ہے۔

دوسری قسم کی رقم جو کہ انشورنس ادارہ حکومت کے ساتھ معاہدہ کے تحت عوام کے علاج پر خرچ کررہا ہے یہ رقم چونکہ اکثر سود، سٹہ اور دھوکہ دہی جیسے ناجائز ذرائع سے حاصل کردہ ہے اس لئے اس کے بارے میں شرعی ضابطہ وقانون یہ ہے کہ جن لوگوں سے یہ رقم لی تھی ان ہی کی طرف لوٹادی جائے اور اگر لوٹانا ممکن نہ ہو تو یعنی ان کے ورثاکا کوئی پتہ نہیں ہو تو پھر ثواب کی نیت کے بغیر صدقہ کردی جائے ۔

مزید پڑھیں:  بھکر، فورسز کے ہاتھوں پنجاب میں داخل ہونیوالے 2 دہشتگرد ہلاک

اس فتویٰ کے حوالہ سے پروگرام کے ڈائریکٹر سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے موقف اختیار کیا کہ اگر علما نے یہ فتویٰ جاری کیا ہے تو میڈیکل ایکسپرٹ کے طور پر وہ اس فتویٰ کو چیلنج نہیں کرسکتے ہیں یہ دینی شعبہ ہے تاہم اس فتویٰ سے متعلق رہنمائی کیلئے سیکرٹری صحت کی جانب سے جواب دیا جائے گا۔