ہیلتھ ریگولیٹری اتھارٹیز کے نام

یوں تو وطن عزیز میں مہنگائی کا طوفان ویسے ہی سر چڑھ کر بولنے لگا ہے لیکن اس کے لئے صرف حکومت کو مورد الزام ٹھہرانا اس لئے درست نہیں کہ اس تندوتیز طوفان کی سرکش لہروں کو مزید ہوادینے میں عوام کا بھی پورا پورا ہاتھ ہے۔ پرچون دکاندار ہوں یا ہول سیلرز، اڑھتی ہوں یا خریدار، سٹاکسٹ ہوں یا کارخانہ دار، سب کے سب اپنے انداز میں اسی طوفان کے رخ چلتے ہوئے غریب عوام کے آشیانے ساتھ اڑالیتے ہیں۔ایک طرف ٹرانسپورٹرز کرایوں میں من چاہے اضافے کردیتے ہیں تو دوسری طرف نان بائی حضرات ایکا کرکے روٹی کا وزن کم اور قیمت زیادہ کردیتے ہیں۔ پٹرول پمپس کے مالکان تیل کے بدلے عوام کا خون چوستے ہیں تو کیمسٹ اور میڈیکل سٹور والے دوائیوں میں من چاہے اضافے کردیتے ہیں۔عرض معاشرے کے جس فرد کا جتنا بس چلے اسی طوفان بدتمیزی میں اپنا حصہ ڈال دیتے ہیں۔ ویسے تو اسی حمام میں ہم سب ننگے ہیں لیکن حیرت اور مایوسی اس وقت ہوتی ہے جب مسیحا کی شکل میں انسانی درندے مریض کی بے بسی کا فائدہ اٹھا تے ہوئے اسے لوٹ کر اپنی تجوریاں بھر تے ہیں۔ بلا شبہ ڈاکٹرز معاشرے کا وہ طبقہ ہوتے ہیں جو اپنی بے پناہ صلاحیتوں کی بنیاد پرمیڈیکل کالجز تک رسائی حاصل کرتے ہیں اور پھر انسانی خدمت کا حلف اٹھاکر میدان میں آجاتے ہیں۔ ایک مریض ڈاکٹر کے پاس اس وقت جاتا ہے جب وہ درد کی شدت کو ختم کرنے کے لئے کوئی بھی قیمت دینے کے لئے تیا ر ہوتا ہے لیکن دوسری طرف قومی دولت سے بنے یہی مسیحا پھران سیدرد کے مارے ایک ایک چیخ کی پوری قیمت وصول کرنے میں لذت محسوس کرتا ہے۔ پچھلے دنوں میرے ایک قاری نے اسی طرح سے اپنا دکھڑا سناتے ہوئے بتایا کہ وہ نہ چاہتے ہوئے بھی اپنے بیٹے کو اسلام آباد کے ایف ٹین مرکز کے سامنے ایک نجی کلینک پر ایک ڈینٹسٹ کو دکھانے لے گئے۔ بند گلی کے آخری مکان کے ایک کھلے ڈھلے لان میں اپنی باری کا انتطار کرتے ہوئے وہ مسلسل مذکورہ علاج پر اٹھنے والے اخراجات کے تخمینے لگاتے رہے۔ علاج شروع ہونے کے بعد مشکل سے دو سے تین بار مریض ڈاکٹر کے پاس جاتا رہا کہ اگلے دن ڈاکٹر نے مریض کو سوا تین لاکھ کا ایک اوربل تھما کررقم کی ادائیگی کے طریقہ کار پر بحث کرنا چاہا تو مریض ایک دم حیرت ذدہ ہوکر انکھوں میں بے بسی لئے ڈاکٹر کی طرف دیکھ کر کہنے لگا، بہتر ہے یہی پیسے میں اپنے بیٹے کی دانتوں کی علاج کے بجائے ان کی شادی کیلئے بچاکے رکھوں۔ستر ہزار پر سواتین لاکھ کا مطلب پورے چارلاکھ۔ اورمزیدکچھ چھپے اخراجات ملاکر یہ رقم آرام سے پانچ لاکھ تک پہنچنے کا اندیشہ تھا۔آدھا ملین ہمارے معاشرے میں ایک عام آدمی کا کل اثاثہ ہوتا ہے جس سے ان کے کئی خواب پورے ہونے ہوتے ہیں اگر وہ پورا اثاثہ ایک بیٹے کی دانتوں کے علاج پر لگ جائے تو باقی کی زندگی کیلئے انہی دانتوں کو چبانے کیلئے بھی تو کچھ چاہئے، اسکی روٹی روزی کا بندوبست کہاں سے کریں؟ بہرحال مذکورہ لیڈی ڈاکٹر ہمارے معاشریکا واحد کردار نہیں ہے، پورے معاشرے کے اوے کا اواہی بگڑا ہوا ہے۔ پشاور اور حتی کہ دالحکومت اسلام آباد کے کئی معروف نجی ہسپتالوں کی حالت اس سے بھی بدتر ہے۔ اسلام آباد کے ایک نجی ہسپتال میں کام کرنے والے ڈاکٹر دوست اندر کا احوال بیان کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ کس طرح ان سپیشلسٹ سرجنوں کا حصہ ان پیسوں میں بنتا ہے جو وہ بلا ضرورت مریضوں کو آپریشن پر مجبور کرکے بٹورلیتے ہیں۔اسی طرح میڈیکل سپیشلسٹ اپنا حصہ ان غیر ضروری میڈیکل ٹیسٹوں کی مد میں حاصل کرتے ہیں جو وہ مریضوں سے اپنے ہی ہسپتال کے لیبارٹری سے کروانے پر مجبور کرتے ہیں۔ پشاور کے ڈبگری گارڈن میں ڈاکٹروں کے ایجنٹس مریضوں کوان لیبارٹریوں سے ٹیسٹس کروانے پر مجبور کرتے دیکھے جاسکتے ہیں جہاں سے انکو پرکشش کمیشن ملتی ہے۔ دوا ساز کمپنیاں ڈاکٹروں سے اپنے پراڈکٹس کی پرموشن کرواتے ہیں اور اسکے بدلے میں ڈاکٹروں کو اپنا حصہ تخفے تخایف،اور باہر کے ملکوں میں اپنے اہل خانہ سمیت سیر سپاٹوں کی صورت میں ملتا ہے۔سرکاری ہسپتالوں کا باوا آدم ہی نرالا ہے جہاں پر سرکاری اہلکار سیدھے منہ مریض سے بات ھی گوارا نہیں کرتے۔ آپریشن تھیٹر کا حال دیکھو تو خون سے لت پت بیڈز دیکھ کر مریض کا دم گھٹ جاتا ہے جس کی وجہ سے مریض چار ولاچار نجی ہسپتالوں کا رخ کرتے ہیں۔ہیلتھ ریگولیٹری اٹھارٹیز کے نام پر بنے ادروں سے صرف اتنی گزارش ہے کہ ان تمام نجی ہسپتالوں کیلئے کم از کم ایسے کچھ اصول وضع کریں کہ ڈاکٹروں کی فیس سے لیکر ، لیبارٹری میں ہونے والے ٹیسٹوں، آپریشن تھیٹر اور اس سے جڑے کاموں کے داموں میں یکسانیت ہو۔مثلًا آپریشن چاہے جس نوعیت کا بھی ہو سارے ہسپتالوں میں اسکے چارجزیکساں معین ہوں۔ اسی طرح ہسپتالوں میں مانیٹرنگ کا ایک باقاعدہ نظام وضع کیا جائے جس کے ذریعے مریض سے کسی بھی مرحلے پر زیادتی ثابت ہونے پر متعلقہ ہسپتال اور سٹاف کے خلاف تادیبی کارروائی کی جاسکے۔

مزید پڑھیں:  اک نظر ادھربھی