خواب ہی خواب ہیں تعبیر کوئی نہیں

لیجئے وفاقی کابینہ نے بجلی کے فی یونٹ نرخ میں7روپے99پیسے اضافے کو گزشتہ روز مؤخرکردیا بلاشبہ یہ اچھا فیصلہ ہے۔ اضافہ مؤخر نہ کیا جاتا تو بجلی فی یونٹ24 روپے ہوجاتی جس سے عام آدمی کے لئے ماہانہ بجلی بل کی ادائیگی بہت مشکل ہوتی۔ وزیراعظم نے گزشتہ روز وفاقی کابینہ کے اجلاس میں کہا کہ معیشت کو سنبھالنے کیلئے کوئی بھی ضروری قدم اٹھانے سے ہچکچائیں گے نہیں، مشکل فیصلوں کے بعد اچھا وقت بھی آئے گا۔ شہباز شریف تین بار پنجاب کے وزیراعلیٰ رہ چکے اب حکمران اتحاد کی جانب سے وزیراعظم ہیں ان سے بہتر کون جانتا ہے کہ اچھے دن آئیں گے، کی لوریاں سنتے سنتے اس ملک کے باسیوں کی حالت دن بدن پتلی ہوتی جا رہی ہے۔ مہنگائی سے قرضوں تک کا بوجھ عام آدمی کی گردن پر ہے۔ بالادست اشرافیہ کے طبقات ہر دور کے اہل اقتدار سے ساجھے داری کی بدولت محفوظ و مامون ہی نہیں رہتے بلکہ ہر حکومت سالانہ مالیاتی گوشوارے (بجٹ) میں ان کی دلجمعی کا سامان کرتی ہے آئندہ سال کے مالی بجٹ میں بڑے طبقات کو ٹیکسوں میں چھوٹ دینے کے لئے لگ بھگ ساڑھے سترہ سو ارب روپے رکھے گئے۔ گزشتہ دس پندرہ سالوں کے سالانہ مالیاتی گوشوارے اس امر کی تصدیق کرتے ہیں کہ ان میں طبقہ امراء کی ناز برداریوں کے سامان تو بہت ہیں مگر معاشرے کے کچلے ہوئے طبقات کا معیار زندگی بہتر بنانے کے لئے کچھ بھی نہیں۔صولی طور پر متبادل حکمت عملی زیادہ بہتر رہتی جو ادارے فروخت کئے گئے ان میں پیداواری عمل کو بہتر اور معیاری بنانے پر توجہ دی جانی چاہیے تھی۔ مثال کے طور پر کیا وجہ ہے کہ پی آئی اے جیسا قومی ادارہ مسلسل خسارے میں جا رہا ہے مگر نجی ایئرلائنز منافع بخش ہیں؟ اس ایک سوال کے جواب میں اجتماعی بدحالی کا راز پوشیدہ ہے۔ ہونا یہ چاہیے کہ جن اداروں کو معمولی سی محنت سے منافع بخش بنایا جا سکتا ہے انہیں فعال اور کارکردگی بہتر بنانے پر توجہ دی جاتی۔ جیسا کہ پی آئی اے، ریلوے، ڈاکخانہ جات، سٹیل مل کراچی۔ مگر بدقسمتی سے ٹھوس حکمت عملی اور ماہرین کے تعاون سے اداروں کو بہتر بنانے کی بجائے یہ ادارے ہمیشہ سیاسی طور پر بااثر لوگوں یا مختلف محکموں کے ریٹائرڈ افسروں کی چراگاہ ہی بنتے رہے۔ اب یہ اطلاعات موصول ہو رہی ہیں کہ موجودہ حکومت چنیوٹ کے قریب جدید سٹیل مل لگانے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔ یقیناً اس منصوبے کی افادیت ہوگی اور ضرورت بھی لیکن سوال یہ ہے کہ نئی سٹیل مل لگانے کے ساتھ کراچی کی سٹیل مل کو ازسرنو منظم و فعال کرنے میں کیا امر مانع ہے؟ چوتھے فوجی آمر جنرل پرویز مشرف کے دور میں پی ٹی سی ایل جیسے منافع بخش ادارے کے شیئر کا بڑا حصہ اماراتی کمپنی کو فروخت کیا گیا۔ ان کے دور میں حبیب بینک کی نجکاری ہوئی قبل ازیں مسلم لیگ کے ایک دور میں مسلم کمرشل بینک کوڑیوں کے مول منشا گروپ کو فروخت کیا گیا۔ مسلم کمرشل بینک اور حبیب بینک کے اثاثے ان مالیاتی اداروں کو فروخت کرنے کی رقم سے کہیں زیادہ تھے۔
غیرپیداواری اخراجات میں کمی کے لئے ہر کس و ناکس عشروں سے تسلسل کے ساتھ آواز اٹھا رہا ہے اس پر کبھی توجہ نہیں دی جاتی۔ دنیا بھر میں غیرپیداواری اخراجات کا حجم جی ڈی پی کے گروتھ ریٹ کے حساب سے ہوتا ہے ہمارے ہاں یکسر الٹ کہانیاں سنائی جاتی ہیں۔ کسی بھی حکومت کے لئے بہت آسان ہوتا ہے۔ فنڈز کے حصول کے لئے سکوک بانڈز کا اجراء اوراس کے لئے قومی املاک گروی رکھنا غور طلب بات ہے کہ سکوک بانڈز کی مدت مکمل ہونے پر ادائیگی کے لئے کیا کیا جائے گا۔ مزید املاکیں گروی رکھی جائیں گی یا قرضے لئے جائیں گے؟ ارباب حکومت کو مندرجہ بالا سوالات پر ٹھنڈے دل سے غور کرنا چاہیے۔ فکروتدبر کی ضرورت اس لئے بھی ہے کہ عام آدمی یہ کہتا دکھائی دیتا ہے کہ فیصلہ سازوں کی اکثریت کے پاس بیرونی ممالک میں محفوظ ٹھکانے ہیں خاکم بدہن کوئی آڑا وقت آیا تو یہ پہلی پرواز سے چلے جائیں گے نتائج اس ملک کے عام شہریوں کو بھگتنا ہوں گے۔ یہ رائے رکھنے والے اپنی دلیل میں وزن کے لئے جو حوالے دیتے ہیں ان کے درست یا غلط ہونے پر بحث میں پڑے بغیر یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ مشکل فیصلوں کا بوجھ عام شہری ہی کیوں اٹھائے جس کے لئے دو وقت کی روٹی پوری کرنا بھی جوئے شیر لانے جیسا مسئلہ بنا ہوا ہے۔ بڑے طبقات قربانی کیوں نہیں دیتے۔ خودانحصاری پر انقلابی خطوط پر کام کیوں نہیں کیا جاتا۔ قرض کی مے پینے اور فاقہ مستی کے رنگ لانے کی سوچ ترک کرنا ہوگی۔ ہمہ قسم کے اخراجات میں کٹوتیاں ملکی مفاد میں ہوں گی۔ وزیر خزانہ ہوں یا وفاقی کابینہ، ان تمام حضرات کو چاہیے مل بیٹھ کر اس بات پر ہی غور کرلیں کہ آئندہ مالی سال کے بجٹ کے مجموعی حجم اور حقیقی مالیات (موجودہ معیشت) میں کتنا فرق ہے۔ اضافی رقم کہاں سے آئے گی ظاہر ہے قرضے لئے جائیں گے، نجکاری ہوگی یا سکوک بانڈز کے اجراء کے لئے املاکیں گروی رکھی جائیں گی۔ خدا لگتی کہیے کیا قومیں کبھی ان تین کاموں سے اپنے قدموں پر کھڑی ہوئی ہیں؟ عوام الناس کی اکثریت یہ سمجھتی اور کہتی دکھائی دے رہی ہے کہ حکومت کسی کی بھی ہو، چند خاندان ہیں جو پانچ سات نئے چہروں کے ساتھ کئی دہائیوں سے اقتدار میں ہیں۔ چہروں کی تبدیلی عوام کے مفاد کے تحفظ کے لئے نہیں بلکہ بالادست طبقات کے مفادات کے تحفظ کے لئے عمل میں لائی جاتی ہے۔ بجا کہ گزشتہ روز وفاقی کابینہ میں بجلی کے نرخ بڑھانے، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں اور دیگر معاملات پر کھل کر بحث ہوئی۔ ہونی بھی چاہیے مگر عوام اس سوال کا جواب چاہتے ہیں کہ ان کے دن کب بدلیں گے۔ وعدہ فروا بہت ہوئے۔ خواب بھی بہت بیچ لئے گئے اب وعدوں کو ایفا کیجئے اور خوابوں کو تعبیر تاکہ اس ملک کے بدقسمت طبقات پر زندگی کے دروازے بند نہ ہونے پائیں، ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے دیتے ہیں آپ نہ سمجھنا چاہیں تو آپ کی مرضی۔

مزید پڑھیں:  تزئین و آرائش بعد میں ،پہلے شہر بچائو