بجٹ میں غریبوں کو ریلیف، اشرافیہ پر ٹیکس

موجودہ حالات میں حکومت پاکستان نے مناسب بجٹ پیش کیا ہے بجٹ میں غریبوں کے لیے ریلیف اور اشرافیہ پر ٹیکس تاریخی فیصلے ہیں وفاقی حکومت نے نئے مالی سال کے بجٹ میں سرکاری ملازمین کے لئے کئی ریلیف اقدامات کا اعلان کیا ہے۔ وزیر خزانہ نے بجٹ تقریر میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں15فیصد اضافے کا اعلان کیا۔ انہوں نے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں سابق ایڈہاک ریلیف کو ضم کرنے کا بھی اعلان کیا۔
وزیر خزانہ نے انکم ٹیکس کی بالائی حد میں ملازمین کے لئے ریلیف اقدامات کا اعلان کیا۔سرکاری ملازمین کے لئے انکم ٹیکس کی شرح 6 لاکھ روپے سے بڑھا کر 12 لاکھ روپے مقرر کرنے کا اعلان کیا بجٹ میں عوام کو ریلیف دیا گیا ہے۔ 48 فیصد ٹیکسز درآمدات کے ہیں۔ مقامی ٹیکسز 52فیصد ہیں۔ غریب طبقے کو ٹیکس سے بچایا ہے۔ بجٹ میں عام آدمی کو ریلیف فراہم کیا گیا ہے۔ اس سال 5818 ارب روپے کا ٹیکس جمع ہوگا۔ تنخواہ دار طبقے کو حکومت نے ریلیف فراہم کیا ہے۔نئے مالی سال کے وفاقی بجٹ میں امیروں پربوجھ ڈالاگیا ہے ، 12 لاکھ سالانہ آمدنی پرٹیکس چھوٹ برقراررہیں گی،
آئی ایم ایف نے ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ اور12 لاکھ سالانہ آمدنی پرٹیکس چھوٹ دینے پرکوئی اعتراض نہیں، آئی ایم ایف کا تنخواہیں بڑھانے یا کم کرنے کے معاملہ سے کوئی تعلق نہیں،حکومت نے مشکل حالات میں متوازن اورعوام دوست بجٹ دیاہے.حکومت نے کوشش کی ہے کہ امیروں اورصاحب ثروت افراد پرزیادہ بوجھ ڈالا جائے، اس کے برعکس تنخواہ دار اورکم آمدنی رکھنے والے لوگوں کیلئے ریلیف کے جامع اقدامات کئے گئے ہیں۔ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے اجلاس میں وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کا کہناتھاکہ فارما سیوٹیکل کے ریفنڈ آئندہ چار روز سے ادا کرنے شروع کر دیں گے، اگر چار دنوں میں ریفنڈ کا سلسلہ شروع نہ ہو سکا تو آئندہ دو ماہ میں پیسے کلیئر کر دیں گے۔ فارماسیوٹیکل کمپنیز کے لیے سیلز ٹیکس دستاویزی بنانے کے لیے کیا، ادویات سازی کے ساتھ وہی فیکٹری جوسز بنا رہی ہے، ادویات ساز میک اپ کا سامان بنارہے ہیں اور سیلز ٹیکس نہیں دیتے، اگر انہیں17 کی بجائے کم سیلز ٹیکس لگائیں گے تو یہ ادا ہی نہیں کریں گے۔
خزانہ کمیٹی اجلاس کے دوران ممبران کمیٹی اور وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کے درمیان ا دلچسپ مکالمہ بھی ہوا،کمیٹی ممبران نے مفتاح اسماعیل کو وفاقی بجٹ میں ٹیکس غریبوں پر لگانے سے گریز کرنے کی اپیل کی ، چیئرمین کمیٹی سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ 300سے اوپر جس کا ایک بھی ہندسہ جاتا تو اس کو سارے پر ٹیکس دینا ہوگا.مفتاح اسماعیل نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ آپ کی بات میں وزن ہے، لیکن پیسوں کی بہت ضرورت ہے، ا س دوران مداخلت کرتے ہوئے شوکت ترین نے کہاکہ کسی اور کی جیب کاٹیں غریبوں کے بجائے، جس پر وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے جواب دیا کہ و ہ بھی کاٹیں گے بے غم رہیں، کمیٹی اجلاس میں مفتاح اسماعیل کے جواب پر قہقے لگ گئے۔ہر سال ملک میں 15کلو سونا قانونی طریقے سے اور 80 ٹن اسمگل ہوکرآتا ہے اس پر درآمد ڈیوٹی کم کررہے ہیں،فارما سیوٹیکل کے ریفنڈ آئندہ 4روز سے ادا کرنے شروع کر دیں گے۔ نئے مالی سال کے وفاقی بجٹ میں امیروں پربوجھ ڈالاگیاہے ، 12لاکھ سالانہ آمدنی پرٹیکس چھوٹ برقراررہیں گی، وزیرخزانہ نے کہاکہ آئی ایم ایف کے ساتھ پاکستان رابطے میں ہے اورامید ہے کہ بہت جلد سٹاف سطح کامعاہدہ ہوجائیگا جس کے بعد پاکستان کیلئے قسط جاری ہوگی.ادھر فیڈرل بورڈ آف ریونیو(ایف بی آر)کے چیئرمین عاصم احمد کا کہنا ہے کہ بجٹ میں عام آدمی اور تنخواہ دار طبقے کو ریلیف فراہم کیا گیا ہے۔ ٹیکسٹ میسج کے ذریعے اپنے شناختی کارڈ کے نمبر کا اندراج کروایا تا کہ ان کی تفصیلات سبسڈی کے لیے جمع ہو جائیں۔ یہ سبسڈی ان شہریوں کے لیے ہے جن کی ماہانہ آمدنی کم ہے اور پیٹرول کی بڑھتی قیمتوں سے جن کا خرچہ مزید بڑھ جائے گا۔ عوام نے وفاقی بجٹ کو متوازن قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ بجٹ میں کروڑوں کی پراپرٹی کے مالکان امیروں پر ٹیکس اور تنخواہ دار طبقے کو ریلیف دیا گیا ہے بجٹ کو متوازن قرار دیتے ہوئے عوام نے کہا کہ کروڑوں مالیت کی پراپرٹی کا پر ٹیکس عائد کرنا بہترین اقدام ہے اور تنخواہ دار طبقے کو ریلیف دینا بھی خوش آئند ہے۔ خیال رہے کہ پاکستان کی وفاقی حکومت نے آئندہ مالی سال کا بجٹ پیش کرتے ہوئے ان تمام لوگوں کے لیے دو ہزار روپے کی سبسڈی مختص کی ہے جن کی تنخواہ 40 ہزار سے کم ہے۔ اس سکیم کے لیے خود کو رجسٹر کرنے والے خواہشمند افراد کو اپنے فون سے 786 پر اپنی تفصیلات کا اندراج کرنے کو کہا گیاہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ سبسڈی کا مقصد کم تنخواہ پر مامور افراد کو ریلیف دینا ہے۔ یہ سبسڈی بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کا حصہ ہے۔موجودہ معاشی صورتحال کے پیشِ نظر سبسڈی دینے کے اس اقدام کو زیادہ تر ماہرین خوش آئند سمجھ رہے ہیں کیونکہ اس سے عوام کو رعایت ملے گی۔ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت ٹارگیٹڈ سروے کیے گئے تھے تا کہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ کس طبقے کی کیا ضرورت ہے اور اسے کیسے اور کتنی رعایت دی جائے۔ اس سروے کا ایک فائدہ یہ ہوا ہے کہ عوام کی ضروریات کا اندازہ لگا کر یہ سبسڈی پروگرام متعارف کیا گیا ہے۔ اگر تمام سیاسی جماعتوں کا تجزیہ کریں تو پچھلی حکومت نے امیروں اور بیوروکریٹس کو تقریبا 1عشاریہ 75 کھرب کی ٹیکس رعایتیں دی تھیں۔ امیروں پر ٹیکس عائد کیے بغیر آپ عوام کو دیرپا فوائد نہیں پہنچا سکتے۔ اس کا حل یہی ہے کہ امیروں سے لے کر غریبوں کے لیے گنجائش بنائیں۔ بجٹ میں غریبوں کے لیے ریلیف اور اشرافیہ پر ٹیکس تاریخی فیصلے ہیں ۔

مزید پڑھیں:  کور کمانڈرز کانفرنس کے اہم فیصلے