آئی ایم ایف کا سنگ دل محبو ب قدموں میں ڈھیر

آئی ایم ایف نے سنگ دل محبوب کی طرح حسب عادت وروایت موجودہ حکومت کو ادائیں دکھا کرخوب تڑپایا ۔وزیر اعظم شہباز شریف کئی برادر اور دوست ملکوں کے پاس گئے مگر کچھ حاصل نہ ہوا ۔ترکی چین سعودی عرب متحدہ عرب امارات سمیت جانے مانے اور آزمودہ دوست تسلی کے دوبول کہہ کر واپس خالی ہاتھ لوٹاتے رہے ۔ اس دوران امریکہ کے نوتعینات سفیر سے وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کی ملاقات نے اس بنگالی بابے کے عمل کا کام دیا جس سے سے سنگ دل محبوب قدموں میں ڈھیر ہوجاتا ہے ۔اس ملاقات کے بعد آئی ایم ایف کی جانب سے خوش گوار ہوا کے جھونکے چلنا شروع ہوگئے جو پاکستان کے عوام کے لئے لوکے تھپیڑوں سے کم نہیں تھے اور یوں آئی ایم ایف نے خوفناک شرائط پر قرض کی ایک اور قسط جاری کرنے پر آمادگی ظاہر کر دی۔ وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے یہ مژدہ سنایا ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے پر اتفاق ہوگیا ہے جس میں پچاس ہزار روپے سے لے کر ایک لاکھ روپے ماہانہ تنخواہ لینے والوں پر دوبارہ ٹیکس لگایا جائے گا جبکہ جولائی سے ہر مرحلے میں پانچ روپے لیوی عائد کی جائے گی جو کم سے کم ہر مرحلے پرپچاس کی بجائے تیس روپے ہوگی ۔ان کا کہنا تھا کہ تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس لگانے کا فیصلہ مجبوری میں کیا ۔سچ تو یہ ہے کہ موجودہ حکومت بہت مجبور اور لاچار ہے اور اسی عالم میں وہ آئی ایم ایف کا ہر فیصلہ مان کر اپنے عوام کا معاشی بھرکس نکال رہی ہے۔ملک کی معیشت کو اگر اس حال تک پہنچنا ہی تھا پھر پی ڈی ایم کو یہ بلا اپنے سر لینے کی کیا پڑی تھی۔ایسا نہیں کہ ملکی معیشت میں کسی بڑے سدھار کے آثار تھے ۔صاف لگ رہا تھا کہ وینٹیلیٹر پر پڑے مریض جاں بہ لب کو اب صرف مصنوعی تنفس کی ضرورت ہے اور اس میں کوئی تعطل کوئی رکاوٹ نہیں آنی چاہئے۔اقوام متحدہ کے اقتصادی سماجی کمیشن برائے ایشیا بحرالکاہل نے اپنی پالیسی بریفنگ میں کہہ دیا تھاکہ پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جو یوکرین جنگ سے متاثر ہوں گے ۔یہ جنگ فروری میں شروع ہوئی تھی اور ایشیا اور بحرالکاہل کا علاقہ اس سے خاصا متاثر ہوا۔بریفنگ میں کہا گیا تھا کہ پاکستان اور سری لنکا اس جنگ سے زیادہ متاثر ہوسکتے ہیںکیونکہ ان کا معاشی ڈھانچہ اور حالات توانائی اور اشیائے خورد ونوش کی زیادہ قیمتیں محدود بیرونی آمدن بڑھتی ہوئی مالی لاگت کاروباری رجحان میں اچانک تبدیلی سے متاثر ہوئے ہیں۔پاکستان پہلے ہی مالی بحران کا شکار ہے،کرنٹ اکاونٹ خسارہ بیرونی زرمبادلہ کے ذخائرمیں کمی اور ملکی کرنسی کی قدر میں تیزی سے کمی ہو رہی ہے۔پاکستان اور سری لنکا میں بیرونی قرضوں اور بیرونی آمدن کا تناسب حد سے تجاوز کرگیا ہے ۔اس پالیسی بریف میں پاکستانی معیشت اور آنے والے حالات کی منظر کشی کی گئی تھی۔جنوبی ایشیا کے دوملکوں پاکستان اور سری لنکا کے حالات کو زیادہ خوفناک قرار دیا گیا تھا اور وقت نے اس بات کو سچ ثابت کیا ۔سر ی لنکا میں ایک بھرپور سیاسی اتھل پتھل ہوئی وہاں کے عوام نے وزیروں کی گاڑیوں کو نہروں میں بہادیا مگر پاکستان کے عوام صبر وشکر کے عالمی چیمپئن ہیں کیونکہ یہاں مہنگائی کی وجوہات اور اسباب میں سب طاقتور شامل ہوتے ہیں ۔یہاں مہنگائی بڑھنے کی وجہ کوئی ایک طبقہ اور فریق نہیں ہوتا ۔مہنگائی کی لہر ان بالادست طبقات کو صرف چھو کر گزر جاتی ہے ۔ وہ بھی اس طرح کہ ان کے نوکر چاکر ہی مہنگائی سے متاثر ہوتے ہیںاور ظاہر وہ ان کے گھروں میں مہنگائی کا رونا روتے ہوں گے ۔خود اس کلاس پر براہ راست مہنگائی کا کوئی اثر نہیں پڑتا ۔ان بااثر طبقات کی آئی ایم ایف اور اس کے گارڈ فادر امریکہ کے ساتھ اچھے تعلقات ہوتے ہیں اس لئے وہ مہنگائی کے تازیانے کو مجبور ی کہہ کر خود بھی سہہ جاتے ہیں اور عوام کو بھی سہنے پر مجبور کرتے ہیں۔مدتوں سے ایک کھیل جاری ہے اور اس کھیل میں قطرہ قطرہ شکست صرف ریاست پاکستان اور اس کے مفلوک الحال عوام کا مقدر ٹھہرتی ہے جنہیں آئی ایم ایف کا قرض اتارنا پڑتا ہے۔مراعات یافتہ طبقے کی مراعات کا سورج ہر حال میں چمکتا دمکتا ہے۔ سو آج بھی یہی ہو رہا ہے۔آئی ایم ایف سے معاہدہ ہو یا نہ ہو عوام کی بلا سے عوام کے دن کونسا پھرنا ہیں ان کی تاریک راتوں میں کونسا چراغاں ہونا ہے ۔ عوام کے حصے میں تلچھٹ بھی نہیں آئے گی مراعات یافتہ طبقوں کو مزید مراعات ملیں گی اور عوام کا مقدر طفل تسلی آئے گی ۔ٹیلی ویژن پر مجبوری کے لمبے بھاشن اور ماضی کے حکمرانوں کو کوسنے دینے کا ایک ڈرامہ چلتا رہے گا کیونکہ یہی پاکستان کا مقدر ہے اور یہ مقدر لوحِ محفوظ پر نہیں کسی خود ساختہ ارضی دیوتا نے لکھ رکھا ہے ۔اپنا مقدر اپنے ہاتھ سے لکھنے کی کوشش کرنے کی سز ا بہت کڑی ہے اوراس بارے فیص نے کہا ہے
ہر راہ جو اُدھر کو جاتی ہے مقتل سے گزر جاتی ہے

مزید پڑھیں:  ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کی حکمرانی
مزید پڑھیں:  پولیس کی بروقت کارروائی اور تشدد

خود انحصاری کی راہ کانٹوں سے بھری ہے کیونکہ اس راہ پر چل کر آپ عالمی سامراج کے دربار اور دائرے سے نکل جاتے ہیں اور اس کا مطلب ہے کہ آپ اس کی مزید چاکری کے قابل نہیں رہتے ۔پاکستان ان دنوں انہی حالات کی تصویر بنا ہوا ہے۔آئی ایم ایف کی قسط کا جشن یوں منایا جاتا ہے جیسا کہ آزادی کا جشن ہو۔اس سوچ کا انجام وہی ہے جو دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت کا ہورہا ہے ۔اس کا مقدر کہیں افغانستان تو کہیں سری لنکا کے ساتھ لکھ دیا گیا ہے۔