ابھی مصروف ہوں میں اپنی عزاداری میں

روس کے صحافی نے جنگ سے متاثر یوکرینی بچوں کی امداد کے لئے نوبل انعام میں ملا سونے کا میڈل نیلام کر دیا ہے’ روسی صحافی کا کہنا ہے کہ میڈل کی نیلامی سے حاصل ہونے والی ر قم اقوام متحدہ کے بچوں کی بہبود کے لئے کام کرنے والے ادارے کے ذریعے یوکرین میں جنگ سے بے گھر ہونے والے بچوں کی مدد اور بحالی کے لئے خرچ کی جائے گی۔ روسی صحافی دیمتری میر یتوونے اپنے بیان میں کہا ہے کہ جنگ کے نتیجے میں یتیم ہونے والے بچوں کو بہتر اور محفوظ مستقبل دینا اہم ہے ‘ میریتوو نے نوبل انعام میں ملنے والی پانچ لاکھ ڈالر کی رقم پہلے ہی امدادی کاموں کے لئے دینے کا اعلان کر چکے ہیں ‘ مغربی ممالک کی نسبت سوچ بالکل مختلف ہے’ اس کی وجہ بھی ظاہر ہے کہ وہاں دولت کی ریل پیل ہے جبکہ ہمارے ہاں غربت کی انتہا ہے ویسے اچانک درمیان میںایک خیال ذہن میں کوندا ہے کہ یوکرین پر حملہ بھی روس نے کیا ہے جبکہ وہاں اسی جنگ سے متاثرہ بجوں کی امداد کے لئے روسی صحافی کا آگے آنا حیرت کا باعث ہے ‘ شاید اب وہاں سابق سوویت یونین کے زمانے کے حالات بالکل ہی بدل گئے ہوں گے ‘جب اس قسم کی سوچ کا پنپنا مشکل تو کیا ‘ ناممکن ہوتا تھا ‘ اور اس قسم کی سوچ کے لوگوں کو نشان عبرت بنا دیا جاتا تھا ‘ خیر یہ تو جملہ ہائے معترضہ ہی ہے ‘ ہم مغربی دنیا اور اپنے جیسے غریب ممالک کا تقابلی جائزہ لینا چاہتے ہیں عالمی سطح پر جو میڈلز اور ان کے ساتھ نقد انعامات دیئے جاتے ہیں ان کی بڑی وقعت ہوتی ہے یعنی میڈلز خالص سونے کے بنائے جاتے ہیں اور ان کے ساتھ لاکھوں ڈالرز نقد انعام کے طور پردیئے جاتے ہیں ‘ انعامات لینے والے عام طور پر ان انعامات کو کسی ادارے وغیرہ سے منسوب کردیتے ہیں ‘ اور اگر کبھی ضرورت پڑ جائے کہ کسی بھی ضرورت کے تحت یعنی اچھے کاز کے لئے میڈلز نیلام کئے جائیں تو ان میڈلز کے خریداروں کی ایک لائن لگ جاتی ہے اور ایک سے بڑھ کر قیمت لگائی جاتی ہے ‘ مقصد صرف اور صرف یہ ہوتا ہے کہ جس نیک مقصد کے لئے میڈل نیلام کیا جارہا ہے اس میں زیادہ سے زیادہ رقم جمع کرائی جا سکے ۔ یہ تو میڈلز کی صورتحال ہے ‘ مغربی ممالک میں تو مشہور لوگوں کی زندگی اور زندگی کے بعد ان کے زیر استعمال مختلف اشیاء بھی نیلام کرنے کی روایت موجود ہے ‘ اس حوالے سے ایک طویل فہرست موجود ہے اور شاید اسی کی تقلید کرتے ہوئے ابھی حال ہی میں سابق وزیراعظم عمران خان کے ساتھ ایک گیارہ سالہ بچے نے ملاقات کرکے اپنی”عقیدت” کا ا ظہار کیا تھا تو عمران خان نے خیبر پختونخوا میں قیام کے دوران وزیر اعلیٰ کی رہائش گاہ کی انیکسی میں اس بچے کی قیمض پر مارکر کے ذریعے دستخط کئے تو تحریک ا نصاف کے ساتھ محبت رکھنے والوں نے اس قمیض کی قیمت لگاتے ہوئے نہ صرف اندرون بلکہ بیرون ملک سے بھی بھاری پیشکشیں آنا شروع ہوئیں ‘ یہ الگ بات ہے کہ بعد میں پتہ چلا کہ اس بچے کے والد نے مبینہ طور ڈرامہ رچایا تھا اور اخباری اطلاعات کے علاوہ سوشل میڈیا پر بھی یہ خبریں سامنے آتی رہیں کہ بچے کاوالد ایک اہم عہدے پر نگاہیں جمائے ہوئے تھا معلوم نہیں موصوف اپنے مقصد میں کامیاب ہوا یا نہیں ‘ بہرحال اس قمیض پر آنے والی پیشکشوں کا سوشل میڈیا پر جتنی بھد اڑائی گئی اس کی مثال بھی نہیں ملتی ‘ خیر بات ہو رہی تھی میڈلز اور انعامات کی جس کی وقعت ہمارے ملک میں حیثیت یہ ہے کہ جو سوال ایوارڈز ہر سال تقسیم کئے جاتے ہیں ان میں صرف پرائیڈ آف پرفارمنس یعنی صدارتی تمغہ حسن کارکردگی کے ساتھ دس لاکھ روپے نقد دیئے جاتے ہیں اور ان کے علاوہ باقی شاید کسی ایوارڈ کے ساتھ نقد انعام کا لاحقہ شامل نہیں ہے ‘ یہی وجہ ہے کہ بعض اوقات تمغہ امتیاز پانے والے نقد رقم لف نہ ہونے کی وجہ سے اسے لینے سے انکار بھی کر دیتے ہیں جبکہ پرائیڈ آف پرفارمنس کے بعد ستارہ امتیاز ‘ ہلال امتیاز اور نشان امتیاز جیسے ایوارڈز باعث توقیر ہوتے ہیں مگر ماضی میں حکومتوں کی پالیسیوں سے اختلاف رکھنے والوں نے برملا یہ ایوارڈز لینے سے انکار کیا ایسے لوگوں میں اگرچہ احمد فراز جیسا لیجنڈ بھی شامل تھا جس نے ہلال امتیاز ٹھکرادیا تھا مگر ان کے فرزند ارجمند شبلی فراز نے ان کی رحلت کے بعد اپنی حکومت سے نشان امتیاز منظور کروا کر ادبی حلقوں سے طعنے سنے کہ اگر احمد فراز زندہ ہوتے تو یقینا اس کو بھی ٹھکرا دیتے ‘ خیر وثوق سے تو نہیں کہا جا سکتا کہ مرحوم احمد فراز واقعی اسی انعام کو ٹھکرا دیتے یا پھر بیٹے کی”محبت” میں وصول کرنے پر آمادہ ہوجاتے ‘ مگر اعتراض کرنے والوں کی زبانیں کون بند کراسکتا ہے ۔ بقول ثناء اللہ ظہیر
اے زمانے میں ترے اشک بھی رولوں گا مگر
ابھی مصروف ہوں خود اپنی عزا داری میں
اب بات کرتے ہیں اپنے ہاں کے ایوارڈز کی بے توقیری کی ‘ ہمارے مرحوم دوست اور ہندکو ٹی وی پروگرام کے ایک اہم کردار صلاح الدین پرایک زمانے میں کڑا وقت پڑا اور اس نے متعلقہ حکومتی ثقافتی ادارے سے امداد حاصل کرنے میں شدید ناکامی کے بعد بالآخر پی ٹی وی اور دیگر اداروں سے حاصل کردہ ایوارڈز کے علاوہ پرائیڈ آف پرفارمنس والے سونے کے میڈل کو نیلام کرنے پر مجبور ہوئے مگر ان میڈلز اور ایوارڈز کو خریدنے کے لئے کوئی آگے نہیں آیا اور وہ بے چارہ مسائل کا شکار رہا ‘ کوئی مغربی ملک ہوتا تو یا تو یہ میڈلز وغیرہ خریدنے والوں کی ایک طویل قطار لگ چکی ہوتی ‘ یا پھر پیشکشیں آنا شروع ہو چکی ہوتیں۔

مزید پڑھیں:  بجلی ا وور بلنگ کے خلاف اقدامات
مزید پڑھیں:  قصے اور کہانی کے پس منظر میں

ان کو مالی امداد فراہم کرنے کے لئے اس وقت صرف اباسین آرٹس کونسل ہی آگے آئی اور صلاح الدین بینیفٹ شو کے نام سے ایک ثقافتی پروگرام سٹیج کرکے ان کی حتی المقدور امداد کی ‘ افسوس کی بات یہ ہے کہ اس شو سے پہلے صلاح الدین مرحوم کے اپنے ساتھی اداکاروں نے اس شو میں بلا معاوضہ کام کرنے کا وعدہ کیا مگر سٹیج شو شروع ہونے سے پہلے انہی لوگوں نے معاوضہ لئے بغیر عین وقت پر شرکت سے انکار کر دیا ‘ بڑی مشکل سے انہیں اگلے روز ادائیگی پر راضی کرکے پرفارمنس کرائی گئی ‘ کیونکہ اس وقت ادارے کے پاس رقم نہیں تھی اور اگلے روز بینک سے رقم نکلوا کر ان کو ادائیگی کرنی پڑی یہ دنیا کے بے وقعتی کی سوا اور کیا ہے کہ ایک مصیبت میں گھرے ہوئے فنکار کے اپنے دیرینہ ساتھی بھی اس کی امداد سے ہاتھ کھینچ لیں ‘ تاہم بعد میں بڑی تگ و دو کے بعد متعلقہ سرکاری ادارے نے بھی صلاح الدین کی مالی امداد کرکے اسے وقتی طور پرمشکلات سے باہر نکالا متعلقہ سرکاری ثقافتی ادارے نے بعد میں خیبر پختونخوا کے اہل فن و ہنر کے لئے سالانہ بنیادوں پر معقول وظائف کا نہ صرف اعلان کیا بلکہ اسے عملی جامہ بھی پہنایا مگر فنکار برادری کے بعض عاقبت نا اندیش افراد نے اس کے خلاف اتنا زہریلا پروپیگنڈہ کیاکہ سرکار کو تو بہ کرنا پڑی۔ اگرچہ اس حوالے سے اب بھی غریب فنکار آوازیں اٹھاتے ہیں مگر سرکار”بدنامی” کے خوف سے خاموش ہے ۔
اساں اجڑے لوک مقداراں دے
ویران نصیب داحال نہ پچھ
توں شاکر آپ سیانا ایں
ساڈا چہرہ پڑھ ‘ حالات نہ پچھ