ٹی ٹی پی کے ساتھ امن مذاکرات

تین سال قبل جب پاکستان کی وساطت سے قطری دارالحکومت دوحہ میں امریکہ اورطالبان کے مابین امن مذاکرات ہو رہے تھے تو اس موقع پر پاکستان نے بھی دونوں فریقوں کے سامنے سوال اٹھایا کہ کیا پاکستان میں بھی امن کو موقع دیا جائے گا تو امریکہ نے فوراً یقین دہانی کرائی کہ اگر ہمارے درمیان مذاکرات کامیاب ہو گئے اور ہم افغانستان سے با حفاظت نکل گئے تو پھر پاکستان اور تحریک طالبان کے مابین بھی اسی طرح مذاکرات کا ڈول ڈالا جائے گا جس کے ذریعے پاکستان کو بھی امن نصیب ہو گا مگر امریکہ تو پاکستان کی مدد سے افغانستان سے پرامن طور پر انخلاء کر گیا اور اسے خراش تک بھی نہ آئی لیکن پاکستان میں امن آج تک نہیں آسکا بلکہ امریکہ کے افغانستان سے نکلتے ہی پاکستان میں دہشت گردی کی ایک نئی لہر آ گئی جس سے شمالی وزیرستان سے لے کر کراچی تک کئی خونریز حملے ہوئے جس میں زیادہ تر جانی نقصان فوجی جوانوں کا ہوا چنانچہ اُس وقت کے وزیراعظم عمران خان نے ٹی ٹی پی سے مذاکرات کا فیصلہ کیا اور گذشتہ سال اکتوبر میں حکومتی و قبائلی عمائدین پر مشتمل ایک جرگہ تشکیل دے کر افغانستان روانہ کیا جس نے امن کے لئے ٹی ٹی پی کے رہنماؤںکے ساتھ امن مذاکرات کا سلسلہ شروع کیا۔ دسمبر میں جنوبی وزیرستان میں پیپلز پارٹی کے رہنما سردار نجیب خان محسود پر جب قاتلانہ حملہ ہوا جس کی ذمہ داری تحریک طالبان نے قبول کر لی تو مالا کنڈ سے لے کر شمالی وزیرستان تک تمام قبائلی علاقہ جات میں اس کے خلاف بھر پور ردعمل آیا۔ چنانچہ تمام قبائلیوں نے مل کر ایک کمیٹی تشکیل دی جس کا مقصد ٹی ٹی پی سے مذاکرات کر کے اسے ایسے دہشت گرد حملوں سے باز رکھنا تھا۔ جب کور کمانڈر پشاور لیفٹننٹ جنرل فیض حمید تعزیت کیلئے جنوبی وزیرستان میں نجیب خان کے گھر گئے تو وہاں قبائلیوں کی اُس کمیٹی نے ان سے ملاقات کر کے تعاون کی درخواست کی تو جنرل فیض حمید نے نہ صرف اس سلسلے میں اپنا بھر پور کردار ادا کرنے کی یقین دہانی کرائی بلکہ اسے اپنے پشاور کے دفتر میں آنے کی دعوت بھی دی۔ چنانچہ پشاور میں ہونے والی اگلی ملاقات میں جنرل فیض حمید نے قبائلیوں کی اس کمیٹی میں سیاسی و عسکری رہنماؤں کو شامل کر کے مزید وسعت دے دی۔ افغانستان کی طالبان حکومت کی ثالثی میں ابھی مذاکرات جاری تھے کہ عمران خان کی حکومت ختم ہو گئی لیکن نئی آنے والی شہباز شریف کی حکومت نے بھی امن مذاکرات کو جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔ چنانچہ سینیٹ کے سابق رکن اور جمعیت علماء اسلام کے رہنما مولانا صالح شاہ کی سربراہی میں 53 رکنی مذاکراتی کمیٹی بنائی گئی جس میں سابق گورنرانجینئر شوکت اللہ، موجودہ وفاقی وزیر ساجد طوری، سینیٹ و قومی اسملیوں کے اراکین سمیت سابق اراکین پارلیمنٹ اور تمام قبائلی اضلاع کے اہم ترین عمائدین شامل ہیں جب کہ تحریک طالبان کی طرف سے اس کے امیر نور ولی اور مولوی نور محمد سمیت تمام اہم رہنما شامل ہیں۔ فریقین کے مابین ثالثی کے فرائض افغان طالبان کی جانب سے سراج الدین حقانی انجام دے رہے ہیں۔ مذاکراتی کمیٹی کے کوآرڈینیٹر کے پی کے حکومت کے ترجمان بیرسٹر سیف ہیں۔ افغان دارالحکومت کابل میں اس ماہ 2 اور 3 جون کو دونوں فریقوں کے مابین مذاکرات ہوئے اور ان دو دنوں میں مذاکرات کے کئی ادور ہوئے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امن کیلئے سر توڑ کوششیں ہو رہی ہیں اگرچہ فی الحال ان مذاکرات کا کوئی نتیجہ تو سامنے نہیں آیا اور ایک ماہ کے اندر دوبارہ مذاکرات کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے مگر مذاکراتی کمیٹی کے رکن اور نامور قبائلی رہنما ملک حبیب نور اورکزئی نے دعویٰ کیا ہے کہ 98 فیصد مسائل حل ہو چکے ہیں جب کہ دو فیصد پر بھی جلد اتفاق ہو جائے گا۔ اس سے قبل کہا جا رہا تھا کہ طالبان نے ایسی سخت شرائط رکھی ہیں جو حکومت پاکستان کو کسی طور قبول نہیں کیونکہ ٹی ٹی پی کی شرائط میں اپنے گرفتار رہنماؤں کی رہائی، قبائلی علاقوں سے فوج کی واپسی، آئین پاکستان پر اعتراض اور فاٹا انضمام کا خاتمہ شامل ہیں لیکن ملک حبیب نور اورکزئی سمیت دیگر کمیٹی اراکین کا کہنا ہے کہ اب طالبان نے لچک دکھائی ہے اور وہ قبائلی انضمام کے خاتمے کے علاوہ دیگر شرائط سے دستبردار ہو چکے ہیں۔ وہ پر امید ہیں کہ تحریک طالبان کو فاٹا کی سابقہ حیثیت کی بحالی کے مطالبے سے دستبردار کرا لیں گے۔ اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو جائے اور ہمارے قبائلی علاقے ماضی کی طرح ایک بار پھر امن اور خوشحالی کا گہوارہ بن سکیں لیکن ماضی کے تجربے کی روشنی میں اس کی امید کم ہی نظر آرہی ہے کیونکہ ماضی میں تحریک طالبان کے ساتھ جتنے معاہدے ہوئے وہ دیرپا ثابت نہیں ہوئے اور طالبان نے ایک ہی جست میں سارے معاہدے ہوا میں اڑا ڈالے۔ اس سلسلے میں 2009ء میں ہونے والے معاہدہ سوات اور مالا کنڈ میں اسلامی نظام کے نفاذ کے معاہدے کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔

مزید پڑھیں:  رموز مملکت خویش خسروان دانند