افغانستان ‘ زلزلہ زدگان کی دستگیری کا فریضہ

پشاور میں تعینات افغانستان کے قونصل جنرل نے ہمسایہ ممالک سے زلزلہ زدہ علاقوں میں امداد بھیجنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ مذکورہ علاقوں میں خوراک، ادویات اور خیموں کی اشد ضرورت ہے۔دریں اثناء خیبرپختونخوا کی صوبائی حکومت کی جانب سے افغان حکام کو امدادی سامان سے بھرے ٹرک حوالے کردئیے گئے۔ جس میں خیمے’ باورچی خانے کا سامان اور بستروں سمیت دیگر اشیائے ضروریہ شامل ہیں۔ مزید طبی امداد اور ٹیموں کی روانگی کو آج حتمی شکل دی جارہی ہے۔حکومت کی طرف سے جتنا ممکن ہوسکے افغانستان کے زلزلہ زدگان کی مدد کرے گی اور فلاحی تنظیمیں بھی اسطرح کے حالات میں پیچھے نہیں رہتیں چند ایک فلاحی تنظیمیںاس حوالے سے خاص طور پر نیک نام ہیں مہنگائی کے باعث ہم خوداگرچہ مشکلات کا شکار ضرور ہیں لیکن اس وقت افغانستان میں لوگ زلزلے کے باعث جن حالات سے دو چار ہیں ان کی مدد کے لئے قربانی کے جذبے کے تحت تھوڑی بہت جتنا ممکن ہو سکے اپنا حصہ ڈالنے کی ضرورت ہے یہ ہمارا بطور مسلمان اور ہمسایہ کے فرض ہے جو لوگ صاحب ثروت اور صاحب استطاعت ہیں ان کو دل کھول کر اس مشکل وقت میں اپنے ہمسایوں کی دست گیری کرنی چاہئے ۔
بدعنوانی کا سرچڑھ بولتا جادو
پشاور ہائی کورٹ کے جسٹس روح الامین نے کہا ہے کہ ہمیں پتہ ہے کہ کس کے اثاثے کہاں ہیں کیا محکمہ اینٹی کرپشن ایسے افراد کے خلاف کارروائی کرے گا جن کے اثاثے ”بڑھے” ہیں سب کو معلوم ہے محض ایک شخص کو اس میں ٹارگٹ کرنا صحیح نہیں اگر واقعی انٹی کرپشن کو اتنی فکر ہے اثاثوں کی تو جا کر معلوم کرے کہ کس کے اثاثے کہاں کہاں پڑے ہیں۔ اس سطح پر اس طرح کے ریمارکس کے باوجود مشکل امر یہ ہے کہ بدعنوان عناصر کے خلاف کارروائی نہیں ہوپاتی اولاً ان پر ہاتھ نہیں ڈالاجاتا اور اگر ایسا ہو بھی جائے تو کمزور کیس ‘ تفتیش میں نقائص اور بدعنوان شخص کا تگڑا وکیل اور اگر کہا جائے کہ دیگر عوامل بھی بجائے اس کے کہ ان کی سزا میںممدومعاون ہوں ان کے لئے ایک طرح سے مدد گار ہی ثابت ہوتے ہیں یہی وہ المیہ جس کے باعث بدعنوانی میں کمی کی بجائے اضافہ در اضافہ جاری ہے ملک میں بدعنوانی کارونا تو بہت رویا جاتا ہے مگر سنجیدہ کارروائی نہیں ہو پاتی جب تک قومی سطح پربدعنوانی کو لعنت اور بدعنوان کو معاشرے میں اچھوت سمجھنے کی روایت قائم نہیں ہو گی اور انسداد بدعنوانی کے اداروں سے لیکر نظام انصاف تک بدعنوان کو ہر قیمت پر سزا دینے کا عمل نہیں اپنایا جائے گا معاشرے سے بدعنوانی کے کلچر کا خاتمہ نہیں ہو سکے گا۔

مزید پڑھیں:  اپنے جوتوں سے رہیں سارے نمازی ہو شیار