دی اکانومسٹ

بدترین قحط اورہولناک بغاوتیں دستک دے رہی ہیں،دی اکانومسٹ

پشاور (مشرق پورٹ ))برطانیہ سے شائع ہونے والے معروف جریدے دی اکانومسٹ نے دنیا میں بدترین قحط اور ہولناک بغاوتوں کے خطرے سے خبردار کردیا،

دی اکانومسٹ نے اپنی تازہ ترین اشاعت کے سرورق پر عالمی سطح پرغذائی بحران کے باعث سنگین ہوتی صورت حال کی عکاسی کرتے ہوئے گندم کے خوشوں میں دانہ گندم کی بجائے انسانی کھوپڑیوں کو شامل کیا ہے جبکہ اس حوالے سے جریدے نے دنیا بھرمیں غذائی بحران کے باعث لاکھوں لوگوں کے ہلاک ہونے کی پیشن گوئی بھی کی ہے ۔

جریدے کے مطابق دنیا ایک ایسے مقام پر کھڑی ہے جہاں مختلف ملکوں میں بھوک بغاوت کا سبب بن سکتی ہے ،جریدے نے اپنی اشاعت میں لکھا کہ پچھلی بار جب دنیا کو آج کی طرح غذائی اجناس کی قیمتوں کے بحران کا سامنا کرنا پڑا تو اس نے عرب بہار کو شروع کرنے میں مدد کی، بغاوتوں کی ایک لہر اٹھی جس نے چار صدور کو معزول کیا اور شام اور لیبیا میں خوفناک خانہ جنگیوں کو جنم دیا۔

بدقسمتی سے، ولادیمیر پوتن کے یوکرین پر حملے نے ایک بار پھر اناج اور توانائی کی منڈیوں کو متاثر کر دیا ہے۔ اور اس سال بھی بدامنی ناگزیر ہے۔جریدے کے مطابق خوراک اور ایندھن کی قیمتوں میں اضافہ مہنگائی کی سب سے زیادہ اذیت ناک شکل ہے۔ اگر فرنیچر یا اسمارٹ فونز کی قیمتیں بڑھ جاتی ہیں تو لوگ خریداری میں تاخیر یا اسے چھوڑ سکتے ہیں۔ لیکن وہ کھانا نہیں روک سکتے۔ اسی طرح، نقل و حمل کے اخراجات بھی جسمانی ضرورت میں شامل ہیں، اور زیادہ تر لوگ آسانی سے کام پر نہیں جا سکتے۔ جریدے کے مطابق جب خوراک اور ایندھن مہنگا ہو جاتا ہے تو معیارِ زندگی اچانک گر جاتا ہے۔

مزید پڑھیں:  جنوبی وزیرستان کے پہاڑوں پر سیلابی صوتحال،درہ بین خوڑ سے بچے کی نعش برآمد

یہ درد غریب ممالک میں رہنے والوں کے لیے سب سے زیادہ شدید ہے، جو اپنی آمدنی کا ایک بڑا حصہ روٹی اور بس کے کرایوں پر خرچ کرتے ہیں۔ دیہی لوگوں کے برعکس، وہ اپنی فصلیں خود نہیں اُگا سکتے لیکن وہ فساد پر آمادہ ہو سکتے ہیں۔ اقوام متحدہ نے بھی اس خدشے کا اظہار کیاہے کہ دنیا کو غذائی بحران کے سبب لاکھوں اموات کا خطرہ درپیش ہے ۔اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے رواں برس دنیا کے کئی خطوں اور ممالک میں قحط کے شدید خطرات کے خلاف خبردار کیا ہے۔ انہوں نے متنبہ کیا کہ اس وقت دنیا کو بھوک کے بے مثال عالمی بحران کا سامنا ہے۔گوتریس کے مطابق یوکرین پر روسی فوجی حملے نے دنیا میں پہلے سے موجود مسائل کو مزید مشکل اور شدید تر بنا دیا ہے۔ عالمی سطح پر غذائی قلت میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور اس پس منظر میں اقوام متحدہ کے سربراہ نے تنبیہ کی کہ اس وقت دنیا غذائی تحفظ کی تباہی کا سامنا کر رہی ہے۔ انہوںنے کہا، اس بات کا حقیقی خطرہ موجود ہے کہ 2022ئ میں کئی خطوں اور ممالک میں قحط کا اعلان کر دیا جائے گا۔ان کا مزید کہنا تھاسن 2023ئ تو رواں سال سے بھی بدتر ہو سکتا ہے۔ اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق اس وقت دنیا کے تقریباً 34 ممالک میں کروڑوں انسان قحط اور بھوک کے دہانے پر ہیں۔

مزید پڑھیں:  دہشت گردی کی لہر :پنجاب میں 9ہزار سے زائد افراد واچ لسٹ میں شامل

اقوام متحدہ کی طرح عالمی بینک کے سربراہ نے بھی افراط زر میں حالیہ اضافے کو طویل عرصے تک بلند رہنے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔ عالمی بینک کے صدر ڈیوڈ مالپاس نے کہا،بہت سے ممالک کے لیے کساد بازاری سے بچنا مشکل ہو گا۔ بینک کو خدشہ ہے کہ رواں سال تیل کی قیمتوں میں 42 فیصد اضافہ ہوگا جبکہ توانائی سے ہٹ کر دیگر اشیائ کی قیمتوں میں 18 فیصد اضافے کا امکان ہے۔

عالمی بینک نے موجودہ بڑھتی ہوئی قیمتوں کا موازنہ سن 1980ئ کی دہائی کے تیل کے بحران سے کیا ہے۔عالمی بنک کے سربراہ کا کہنا ہے کہ یوکرین میں جنگ، چین میں کووڈ لاک ڈائون اور سپلائی چین میں خلل سے عالمی ترقی متاثر ہو رہی ہے۔ یوکرین پر روس کے حملے نے توانائی اور گندم کی عالمی تجارت کو درہم برہم کر دیا اور کورونا وائرس وبا کے اثرات سے نجات پا رہی عالمی معیشت کو نشانہ بنایا۔ اجناس کی قیمتوں میں اضافے سے ترقی پذیر ممالک میں لوگوں کی قوت خرید متاثر ہونے کے خدشات لاحق ہیں۔

ڈیوڈ مالپاس کے مطابق، غذائی قلت کے نتیجے میں بھوک میں اضافے اور یہاں تک کے قحط پھیلنے کا شدید خطرہ ہے۔واضح رہے کہ تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے باعث سری لنکا شدید بحران کا شکار ہو چکا ہے جبکہ پاکستان جیسے کمزور معیشت کے ممالک اس قسم کے بحران سے نمٹنے کے لیے ہنگامی مالیاتی صورت حال کا سامنا کر رہے ہیں ۔