G20 کانفرنس دعوے اور الزام کا لٹمس ٹیسٹ

بھارت نے اگلے برسG20ملکوں کی کانفرنس کے مقبوضہ جموں وکشمیر میں انعقاد کا اعلان کیا ہے۔عمومی خیال یہی ہے کہ کانفرنس گرمائی دارالحکومت سری نگر کی بجائے سرمائی دارالحکومت جموں میں منعقد ہوگی ۔G20یعنی گروپ آف ٹوئنٹی دنیا کی بیس بڑی معیشتوں کے درمیان اشتراک وتعاون کی ایک تنظیم میں ہے جس میں ایک طرف امریکہ ،برطانیہ بھارت جیسے ممالک ہیں وہیں چین ،روس انڈونیشیا ترکی سعودی عرب ،ارجنٹینا برازیل جاپان میکسیکو،جنوبی افریقہ جرمنی کینیڈا جیسے ممالک شامل ہیں ۔یوں یہ اقوام متحدہ جیسے ادارے کے بعد اقتصادی ترقی اور تجارت کے حوالے سے قائم ایک اور اہم فورم ہے۔جس میں تما م براعظموں کے اسی فیصد اور دنیا کے جی ڈی پی کا مجموعی 75 فیصد اور دنیا کی ساٹھ فیصد آبادی کے حامل ممالک شامل ہیں۔اس طرح G20ملکوں کا اکٹھ ایک عالمی نوعیت کی سرگرمی ہوتی ہے اور ایک عالمی نوعیت کی سرگرمی کے لئے مقبوضہ جموں وکشمیر کی سرزمین کا انتخاب ایک پرانی خواہش کا نیا اظہار اور انداز ہے۔پانچ اگست 2019کو بھارت نے کشمیر کی خصوصی شناخت اس دعوے کے ساتھ ختم کی تھی کہ ریاست کے پرانے اور اپنے قوانین آئین اور الگ شناخت کو ظاہر کرنے والی علامتیں اس کی تیز رفتار ترقی کی راہ میں رکاوٹ تھیں ۔بھارتی حکومت کے ہاتھ کشمیر کے آئین اسمبلی اور قوانین نے باندھ رکھے ہیں وہ کشمیر کو بھارت کی دوسری ریاستوں کے برابر ترقی دینا چاہتا ہے مگر الگ شناخت اور خصوصی حیثیت اس راہ میں رکاوٹ بن جاتی ہے ۔یہ مدعی سست اور گواہ چست کا معاملہ ہے ۔اس احتجاج کا درجہ پانچ اگست کے احتجاج سے بہت ہی کم اور انداز بہت نرم تھا ۔پانچ اگست کو اس وقت کی حکومت کی طرف سے جو جوابی اقدامات اپنا ئے گئے وہ فطری ردعمل اور ریفلکس ایکشن کے آئینہ دار تھے یعنی ایک ایسا ردعمل جو بے ساختہ ہو جس میں کوئی منصوبہ بندی اور سوچ وبچار شامل نہ ہو۔بھارت کے ساتھ سفارتی تعلقات کا مکمل انقطاع ،اور تعلقات کا درجہ گھٹانے سمیت تجارتی اور سیاسی روابط کا مکمل خاتمہ پاکستان کی حکومت کے وہ ردعمل تھے جس کی مودی حکومت کو پوری طرح توقع نہیں تھی کیونکہ مودی ٹرمپ کو پہلے ہی معاملہ سنبھالنے کی درخواست کر چکے تھے ۔عمران خان کی طرف سے ردعمل میں ان کی انا کے زخم نمایاں تھے کیونکہ وہ مودی سے معانقہ کے لئے ہاتھ بڑھائے کھڑے رہے اور مودی ٹرمپ کو آنکھ مار کر کشمیر پر جھپٹ پڑے ۔ٹرمپ نے معاملہ کب کیوں اور کس طرح سنبھالا ؟ اس سوال کا جواب ملنا اور اس کی تحقیق ہونا باقی ہے۔پاکستان کی طرف سے نریندرمودی کا امیج عالمی سطح پر برباد کیا گیا اور انہیں ہٹلر سے تشبیہ دے کر ڈریکولا بنا کر پیش کیا گیا۔ان کی فکر وفلاسفی کی دھجیاں عالمی فورمز پر اُڑائی جاتی رہیں ۔اس ردعمل کے باوجود موجودہ حکمران اتحاد نے جو اس وقت اپوزیشن میں تھا حکومت پر کشمیر فروشی اور میچ فکسنگ کاالزام بہت شد ومد سے لگایا ۔ وزیراعظم شہباز شریف نے مودی کی طرف سے مبارکباد کے خط کے جواب میں مسئلہ کشمیر کے حل کی بات تو سرسر ی انداز میںکی گئی مگر پانچ اگست سے پہلے کی پوزیشن کی بات اس خط میں غائب تھی ۔بعد میں وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے بھارت سے تعلقات کی بحالی کی خواہشات کے اظہار میں پانچ اگست کے فیصلے کی واپسی کا ذکر گول کیا۔اب بھارت نے کشمیر میں G20ملکوں کے سیمینار کا اعلان کیا ۔بھارت اس مقصد میں کامیاب ہوتا ہے یا نہیں ؟ مگر پاکستان کی موجودہ حکومت کے کشمیرفروشی اور کشمیر فروش اور میچ فکسنگ کے دعوئوں کا ایک امتحان شروع ہوگیا ۔ابھی تک دفتر خارجہ نے ایک بیان پر اکتفا کیا ۔یہ احتجاج کا بہت نرم اور ڈھیلا انداز ہے ۔ہونا یہ چاہئے تھا کہ اسلام آباد میں بھارت کے سب سے بڑے سفارت کار کو دفتر خارجہ طلب کرکے یہ وضاحت مانگی جاتی کہ ایک بین الاقوامی طور پر متنازعہ علاقے میں جہاں دہائیوں سے آزاد اداروں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کا داخلہ ممنوع ہے اس بین الاقوامی سرگرمی کا جواز اور مقصد کیا ہے؟G20ملکوں کے ارکان سے رابطہ کرکے انہیں اپنے تحفظات سے آگاہ کیا جاتا۔چین ترکی انڈونیشیا جیسے ملکوں سے فوری طور پر رابطہ کیا جانا چاہئے تھا۔ابھی تک احتجاج کاایسا کوئی مظاہرہ نہیں ہوا۔یہ پانچ اگست کا پارٹ ٹو ہے اور اگر اس مرحلے پر پی ڈی ایم کی حکومت کا احتجاج کا معیار پانچ اگست کو عمران خان کے اقدامات اور احتجاج سے ایک فیصد بھی کم رہتا ہے تو اس سے کشمیر فروشی اور میچ فکسنگ کا الزام نہ صرف اُلٹا ہوگا بلکہ شکوک وشبہات کا ”کُھرا” کسی اور جانب جائے گاوہ پی ڈی ایم بھی ہوسکتا اور اس سے زیادہ طاقتور قوت بھی ہو سکتی ہے ۔ حقیقت میںیہ دوسال سے جاری دعوئوں اور الزامات کا لٹمس ٹیسٹ ہے۔اسی کو دنوں کا اُلٹ پھیر کہا جاتا ہے۔

مزید پڑھیں:  فیض آباد دھرنا ، نیا پنڈورہ باکس