سود کی لعنت

سود کی لعنت ‘ علماء اور کھاتہ داروں کا کردار

وفاق المدارس ا لعربیہ پاکستان ا ور جید علمائے کرام کی جانب سے سودی نظام کے خاتمے سے متعلق شریعت کورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے پر سودی بینکوں کے بائیکاٹ کی جو اپیل کی ہے اس کے اثرات سے صرف نظر ممکن نہیں جون کے اواخر میں بینکوں کے لئے کھاتہ داروں کے رد عمل سے نمٹنا بہت مشکل ہو گا.

یہاں اس امر کونظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ دو سرکاری بینکوں سمیت کمرشل بینکوں کی جانب سے اس فیصلے کو چیلنج کرنے میں مرکزی اور صوبائی حکومتیں بھی بری الذمہ نہیں مرکزی حکومت کی منشاء کے بغیر سرکاری بینکوں کا فیصلے کو چیلنج کرنا مشکل نظر آتا ہے جبکہ صوبائی حکومتوں کا اگرچہ براہ راست کوئی تعلق تو نہیں بنتا لیکن صوبائی حکومتوں کے اکائونٹ سودی بینکوں میں ہیں جن کو منتقل کرکے سودی نظام کے خلاف بینکاری کی حد تک وہ اپنا کردار ادا کر سکتی ہیں مگر یہاں طرفہ تماشا یہ ہے کہ مدینہ کی ریاست کے نمونے کی پیروی کے دعویدار ہوں یا پھر مرکزی حکومت میں شامل علمائے کرام داڑھی پگڑی والے ہی نہیں کلین شیو اور سوٹ بوٹ پہننے والے بھی مکلف ہیں کہ وہ مالک کائنات سے جنگ اور والدہ سے زنا کے برابر گناہ سے نکلنے کے موقع اور فیصلے کی دامے درمے قدمے سخنے حمایت کریں بہرحال سرکار اور حکومتوں کی مصلحتیں اپنی جگہ ان سے خیر کی توقع نہیں لیکن ایک عام کھاتہ پوری طرح آزاد خود مختار اور فیصلہ کن کردار کا حامل ہونے کے بناء پر عملی طور پر اس لعنت کے خلاف اپنے حصے کا کردار ادا کرنے کا پوری طرح مکلف ہے ۔

کسی مسلمان کو سخت وعید کے باوجود چند روپوں کی لالچ میں اولاً سودی نظام کو اختیار کرنے کی ضرورت نہیں تھی اور نہ ہی اس کی توقع کی جا سکتی ہے گزشتہ راصلوة کے مصداق اب ایک ماحول بن رہا ہے تو یہ سودی نظام کے خلاف عملی کردار ادا کرنے کا زریں موقع ہے اگرچہ سودی نظام کا متبادل اسلامی بینکاری کا نظام توموجود ہے لیکن یہ بھی اشتباہات سے پاک نہیں اور یہ نظام بھی سودی نظام سے ملتا جلتا اور استحصال پر مبنی ہے جس میں کھاتہ داروں کے حقوق کا ایک شراکت دار کے طور پر تحفظ نہیں بلکہ ہر قیمت پر بینک کی بالادستی اور قرض خواہ ہوں یا سرمایہ کار اس کو پابند بنانے کا عمل جاری ہے اسلامک بینکاری میں بھی کھاتہ داروں کو ان کا پورا حق اور کاروبارو شراکت میں منافع کا موزوں حصہ نہیں دیا جاتا اسلامی بینک بھی سودی بینکوں ہی کے مثل منافع دیتی ہیں کھاتہ داروں کی اصل رقم کی قدر میں کمی کے بقدر ہی ان کو منافع کہہ کر ادائیگی ہوتی ہے ایسے میں کھاتہ داروں کے حصے میں منافع آتا ہی نہیں یا پھر بہت کم جبکہ اسلامی قرار دیئے جانے والے بینکوں کی شاخوں میں اضافہ اور کاروبار خوب وسعت پذیر ہے علمائے کرام جہاں سودی بینکاری کے نظام کی مخالفت میں اپنا فریضہ ادا کریں وہاں اسلامک بینکنگ میں بھی اصلاحات متعارف کرانے اور کھاتہ داروں و شراکت داروں کے حقوق کے تحفظ کے لئے بھی ان کو اپنا کردار ادا کرنا چاہئے بائیکاٹ مہم اپنی جگہ بہتر متبادل کی فراہمی اس سے زیادہ موثر ثابت ہو گا۔بینکوں کو چاہئے کہ وہ اپیل میں جانے کی بجائے روڈ میپ تیار کرکے سودی نظام سے نکلنے اور اسلامی بینکاری کی طرف رجوع کرنے کی سعی کریں یہ مبارک قدم ہوگا۔

مزید پڑھیں:  اپنے جوتوں سے رہیں سارے نمازی ہو شیار

سخت حالات کی پیشگوئی
برطانیہ سے شائع ہونے والے معروف جریدے دی اکانومسٹ نے دنیا میں بدترین قحط اور ہولناک بغاوتوں کے خطرے سے خبردار کر دیا ہے دی اکانومسٹ نے اپنی تازہ ترین اشاعت کے سرورق پر عالمی سطح پر غذائی بحران کے باعث سنگین ہوتی صورتحال کی عکاسی کرتے ہوئے گندم کے خوشوں میں دانہ گندم کی بجائے انسانی کھوپڑیوں کو شامل کیا ہے جبکہ اس حوالے سے جریدے نے دنیا بھر میں غذائی بحران کے باعث لاکھوں لوگوں کے ہلاک ہونے کی پیشن گوئی بھی کی ہے ۔اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس ے رواں برس دنیا کے کئی خطوں اور ممالک میں قحط کے شدید خطرات کے خلاف خبردار کیا ہے ۔ اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق اس وقت دنیا کے تقریباً 34 ممالک میں کروڑوں انسان قحط اور بھوک کے دہانے پر ہیں ۔ عالمی بینک کے صدر ڈیوڈ مالپاس نے کہا ہے کہ بہت سے ممالک کے لئے کساد بازاری سے بچنا مشکل ہوگا بینک کو خدشہ ہے کہ رواں سال تیل کی قیمتوں میں 42فیصد اضافہ ہوگا جبکہ توانائی سے ہٹ کر دیگر اشیاء کی قیمتوں میں اٹھارہ فیصد اضافے کا امکان ہے ۔

مزید پڑھیں:  عسکریت پسندوں سے مذاکرات؟

واضح رہے کہ تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے باعث سری لنکا شدید بحران کا شکار ہو چکا ہے جبکہ پاکستان جیسے کمزور معیشت کے ممالک اس قسم کے بحران سے نمٹنے کے لئے ہنگامی مالیاتی صورت حال کا سامنا کر رہے ہیں۔ یہ درست ہے کہ قدرتی حالات کی پیشگوئی کا سو فیصد درست ہونا ضروری نہیں لیکن ماہرین بعض اسباب و علامات دیکھ کر آئندہ کے حوالے سے جو رائے قائم کرتے ہیں وہ پیشگوئی کے زمرے میں نہیں آتا بلکہ حالات کا آگے چل کر رخ اختیار کرنے بارے اندازے لگانا ہے قدرتی حالات میں تبدیلی کے باعث حالات میں بہتری اور ابتری دونوںکا امکان موجود ہوتا ہے جس سے قطع نظر ماہرین نے آنے والے حالات کی جو تصویر پیش کی ہے وہ نہایت بھیانک ہے جبکہ معاشی حالات میں روز بروز ابتری اور پھر دنیا میں جنگوں اور بڑے ممالک کے معاشی مفادات کی جنگ سے چھوٹے ممالک کا خاص طور پر متاثر ہونا تجربے او ر مشاہدات کا نچوڑ ہے محولہ صورتحال کی تیاری کا سورہ یوسف کے مطالعے اور حضرت یوسف علیہ السلام کی جانب سے خواب کی تعبیر اور پیش بندوں کی تجویز اور اس پرعمل کی صورت میں ایک قرآنی حل موجود ہے جسے اختیار کرکے سخت حالات میں بقاء کی جنگ لڑنا ممکن ہو گا اس کے لئے ا نفرادی و گروہی اجتماعی اور حکومتی ہرسطح پر پیش بندی اور پس انداز کرنے کا عمل شروع ہونا چاہئے ۔