تعلیم ‘پی ڈی اے سکول اور ای او بی آئی پنشنرز

ہمارے ایک مہربان ہیں خان لالہ جو 1965ء میں پی آئی میں انجینئر بھرتی ہوئے اور ساری دنیا گھومے سفر کی روداد اور دنیا کی اقوام کے بارے میں ان کے خیالات و تجربات سے پھر کبھی آگاہ کریں گے فی الوقت ان کی اتنی ہی بات موضوع سے متعلق ہے کہ تعلیم ‘ امن و امان اور صحت کے حوالے سے بہتری لائی جائے تو ملک میں تبدیلی آئے دنیا کے جتنے ممالک نے ترقی کی ہے ان کی ترقی کا راز تعلیم پر توجہ اور امن و امان ہے ۔ تعلیم دنیا بھر میں اولین ترجیحات میں بھی سرفہرست ہوتی ہے مگر ہمارے ہاں جس کسی کو کوئی اور کاروبار نہیں سوجھتا پبلک سکول کھول لیتا ہے اور ملازمت کے متلاشیوں کی آخری ترجیح استاد بننا ہوتا ہے استاد لکھتے ہوئے خیال آیا کہ اکثراستاد اور استاذ میں ہم کونسا صحیح ہے کونساغلط کے شبے میں پڑ جاتے ہیں دونوں صحیح ہیں استاد فارسی کا لفظ ہے اور استاذ عربی کا اور اردو ہے ہی لشکری زبان دال سے لکھیں یا ذال سے دونوں ہی ٹھیک ‘ ٹھیک اگر نہیں تو تعلیمی نظام اور تعلیم کے حالات جس کی طرف جتنی توجہ کی ضرورت ہے وہ اپنی جگہ ایسے ایسے لوگوں کو وزیر تعلیم مقرر کیا جاتا ہے جن کو استاد اور استاذ کا نہ فرق معلوم ہے نہ ادب و احترام کسی ویمن یونیورسٹی میں گروپ تصویر میں زیادہ دلچسپی دکھانے والوں سے کوئی کیا توقع رکھے کہ اعلیٰ تعلیم اور جامعات سے لیکر پرائمری سطح تک ہائیر ایجوکیشن اور ابتدائی و ثانوی تعلیم کے وزیر الگ الگ یا پھر ایک ساتھ دل دکھائیں اور کچھ کرکے دکھانے کا جتن کریں۔دو برقی مراسلہ جات ملاحظہ فرمائیں ترجیحات کا بھی اندازہ ہو گا اور مسائل سے بے حسی کا جادو بھی سرچڑھ بولتا نظر آئے گا۔ عمران خان سالارزئی تحریک انصاف کے سرگرم رکن اور حیات آباد کے بلدیاتی نمائندے ہیں وہ اس طرح مخاطب ہیں۔
میں بحیثیت چیئرمین و حیات آبادکے شہری آپ کی توجہ حیات آباد میں40سالوں سے سکولز کے نام الاٹ شدہ پلاٹوں کی طرف دلانا چاہتا ہوں جو گندگی کے ڈھیروں میں تبدیل ہو چکے ہیں علاقہ مکینوں کوفائدہ کی بجائے نقصان ہو رہا ہے یہ خالی پلاٹ مکینوں کے لئے وبال جان بن چکے ہیں، اگر محکمہ تعلیم پشاور ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کی تھوڑی فنی و مالی معاونت کرے تو ان پلاٹوں پر نجی سکولوں کے مقابلے میں معیاری درسگاہیں قائم کی سکتی ہیں جس سے حیات آباد میں قائم پرائیویٹ سکولوں کی اجارہ داری کا مقابلہ بھی ممکن ہو گا اگر محکمہ تعلیم یا پی ڈی اے کو اس سلسلے میں فنڈز کی کمی آڑے آتی ہے تو یہ مثالی سکولز کو نجی شراکت داری سے بھی پایہ تکمیل تک پہنچایا جا سکتا ہے ان سکولوں کو پی ڈی اے سکول کا درجہ دیا جائے اور اس کا انتظام وانصرام پی ڈی کے کے سپردہو اس سے ایک طرف حکومت کو آمدنی ہوگی تو دوسری طرف حیات آباد وگرد ونوح کے غریب ملازمت پیشہ افراد کے بچوں کو معیاری تعلیم میسر آئے گی اور غریبوں میں بچوں کے حوالے سے معیاری تعلیم دلوانے کی احساس محرومی کم ہوجائے گی تجویز مناسب ہے اس حوالے سے پیشرفت کے لئے انہیں پارٹی قیادت اور حکومت سے تحریر ی طور پر رجوع کرلینا چاہئے۔ڈی جی پی ڈی اے اس مناسب تجویز پر غور کریں تو یہ حیات آباد کے شہریوں کے ساتھ ساتھ خود پی ڈی اے کے حق میں بھی اچھا ثابت ہو گا۔
دوسرا مراسلہ بھی ملاحظہ فرمائیں جوچکدرہ دیر سے بھیجا گیا ہے ۔محترمہ بہن بعد از سلام میں آپ کی توجہ ایک اہم مسلے کی طرف مبذول کروانا چاہتا ہوں۔کہ محکمہ تعلیم نے ٹیچرز بھرتی کیلئے ٹیسٹ کا انعقاد این ٹی ایس سے لے کر ایٹا کے حوالہ کیا ہے۔تو اس امر سے بیروزگار نوجوانوں کی حوالہ شکنی کے ساتھ ساتھ غریب لوگوں کا تعلیم کی طرف نہ آنے کا رجحان زیادہ ہو جاے گا۔ ایک معمر پنشنر کا مراسلہ بلکہ فریاد کہیں لکھتے ہیں کہ آپ کے کالم کی بدولت بہت سے غریبوں کے مسائل حل ہوئے اور ہو رہے ہیں اللہ آپ کو جزائے خیر دے ۔میڈم دو سال سے زیادہ ہو چکے ہیں کہ ای او بی آئی پنشن8500روپے ہے اس میں ایک روپیہ بھی اضافہ نہیں ہوا۔ غریب پنشنرز جو 8500 روپے ماہانہ لے رہے ہیں اس میں اضافہ کیا جائے کیونکہ اس سے پنشنرز کا گزارہ نہیں ہوتا ہے دعاگو رہیں گے۔
اس کالم کی وساطت سے بعض اوقات ہی کوئی مثبت جواب ملتا ہے ورنہ کسی کے کانوں پر جون تک نہیں رینگتی کتنے مسائل اور مشکلات کی طرف حکومت کی توجہ دلائی گئی خود وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا ایک بار پھر عوام سے براہ راست شکایات سننے کا سلسلہ شروع کر رہے ہیں مسائل کی نشاندہی اور اجاگر کرنا اپنی جگہ لیکن حل کی طرف کوئی عملی قدم بھی تو اٹھائے ۔ قبل ازیں بھی ای او بی آئی کے پنشنرز کے مطالبات کی طرف توجہ دلائی گئی ہے واقعی نجی اداروں میں عمر بتانے والوں کو شیخ فانی ہو کر بھی سکھ کی گھڑی نہیں ملتی سرکاری ملازمین اور پنشنروں کو پندرہ فیصد کا اضافہ ملے گا ان بیچاروں کو تو کوئی پوچھتا بھی نہیں نہ ہی ان کی کوئی یونین ہے کہ احتجاج کرکے بات منوائیں خالی خزانے اور زہر کھانے کے بھی پیسے نہ ہونے کے باوجود سرکاری ملازمین اور پنشنروں کے لئے گنجائش نکلتی ہے تو پھر ای او بی آئی کے معمر پنشنروں کی ضعیف العمری پنشن میں تھوڑا اضافہ کیا جاتا تو آسمان تو نہیں گر پڑنا تھا۔حکومت کو چاہئے کہ اس پر ہمدرد انہ غور کرے یہ مراسلہ دوبارہ ملا یقین نہیں آتا لیکن بہرحال شکایت آئی ہے کہ اس شدید گرمی اور بدترین لوڈ شیڈنگ کے باوجود تحصیل بڈھ بیر پشاور کے تین تھانوں متنی’ بڈھ بیر اور انقلاب (سوری زئی)کی حدود میں واقع نجی سکولز کھلے ہوئے ہیں شدید گرمی اور ان علاقوں میں بجلی کی بیس گھنٹے لوڈشیڈنگ کے باعث روزانہ ہر سکول میں تین چار بچے بے ہوش ہو جاتے ہیں۔دراصل ان سکولوں میں کینٹین مضرصحت اشیا کی دکانیں اور سٹیشنری کی دکانیں مالکان کی ہیں مزید برآں طلبہ کو لے جانے والی گاڑیوں سے بھی آمدنی ہے۔سکول مالکان غیرحاضری پر طلبہ سے فی کس سو روپے روزانہ جرمانہ وصول کرتے ہیں۔اس کی شکایت پرائیویٹ سکولز ریگولیٹری اتھارٹی سے کی گئی تاہم مبینہ طور پر اس کے افسران کو بھی باقاعدہ بھتہ ملتا ہے۔چیف سیکرٹری خیبر پختونخواآئی جی خیبر پختونخوا اور سیکرٹری محکمہ تعلیم سے استدعا ہے کہ وہ اس کا سخت نوٹس لیں۔
قارئین اپنے مسائل و مشکلات 03379750639 پر واٹس ایپ میسج ‘ وائس میسج اور ٹیکسٹ میسج کر سکتے ہیں

مزید پڑھیں:  موسمیاتی تغیرات سے معیشتوں کوبڑھتے خطرات