جمہوری نظام سے فرار ہونے کے رحجانات

یہ حقیقت تاریخی اعتبار سے تسلیم شدہ ہے کہ آج تک جن سیاسی نظاموں کو اختیار کیا گیا ہے ،ان میں جمہوریت کو عوامی پذیرائی حاصل رہی ہے اگرچہ اس نظام میں بھی چند خامیاں موجود ہیں۔ جمہوریت سے مایوس ہونے والوں کی ایک تعداد معاشرے میں ضرور پائی جاتی ہے لیکن اس سیاسی نظام کے بارے میں اہل فکر زیادہ فکر مند نہیں ہوتے۔ یوں تو ہمارے ہاں کسی بھی نظام کا تسلسل نہیں رہا اور ہر رائج نظام میں لوگ اس کی تبدیلی کے بارے ایک بحث چھیڑ دیتے ہیں ۔ بلاشبہ نظام کی تبدیلی میں عوامی رائے کی بجائے یہاں بااثر اور بااختیار حلقوں نے اپنا اپنا کردار ادا کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قیام پاکستان سے لے کر آج تک ایک نظام رائج نہ ہو سکا اور عوام ہر نئے نظام کی ناکامی کے بعد کسی دوسرے بہتر کی آس میں مختلف طالع آزماؤں کی ریا کاری کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اس وقت مُلک میں اہل سیاست نے ایک جارحانہ انداز اختیار کر رکھا ہے ۔
وفاق اور صوبوں میں مختلف سیاسی جماعتیں برسرِ اقتدار ہیں اور آئینی عہدہ دار اپنی اپنی جماعتوں سے وفاداری کے نتیجے میں بہت سے انتظامی معاملات پر ایک دوسرے سے اُلجھے ہوئے ہیں ۔ سندھ اور خیبر پختونخوا میں گورنر کی تقرری نہیں ہو رہی، پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار پنجاب اسمبلی کے اجلاس ایک ہی دن دو مختلف مقامات پر ہوئے، سابق وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہوئی تو ان کی جماعت اسمبلی میں بیٹھنے کی بجائے سڑکوں پر نکل آئی ، ایک سیاسی جماعت نئی متحدہ حکومت کو ”امپورٹڈحکومت” کہہ کر اسے تسلیم نہیں کرتی جبکہ ماضی میںمتحدہ حکومت کی یہی جماعتیں اپوزیشن میں رہ کر سابقہ حکومت کو ”سلیکٹیڈ ” کا طعنہ دیا کرتیں۔ اس جمہوری نظام میں جو محاذ آرائی، پُر تشدد انداز اور گالم گلوچ کی روش اپنائی جا چکی ہے تو ایسے میں عوام کوجمہوریت سے متنفر کیا جارہا ہے۔ اگر عوامی بے اطمینانی او ر اہل سیاست کا یہ رویہ قائم رہتا ہے تو غیر جمہوری قوتوں اور فسطائیت کو بڑی آسانی سے قدم جمانے کا موقع مل جاتا ہے۔ ہم لوگ آئین کی بالادستی اور عدل و انصاف کی بات تو ضرور کرتے ہیں مگر اس کے احترام کا جذبہ اور اس پر عمل پیرا ہونے کی مکمل فکر نہیں رکھتے۔ ہم اپنے ریاستی،معاشرتی اور معاشی مسائل کے حل کو اپنے طور پہ آسان سمجھتے ہیں۔ جمہوری نظام کی مخالفت میں خود ساختہ بیانیوں اور نعروں سے متاثر ہونے والے یہ سمجھتے ہیں کہ یہاں صرف کرپشن ہے ، کوئی انصاف نہیں اور یہ ان پڑھ قوم جمہوریت کے لائق نہیںلہذا کبھی صدارتی نظام میں مسائل کا حل ڈھونڈا جاتا ہے تو کبھی اپنی کسی پسندیدہ شخصیت کو نجات دہندہ سمجھ لیتے ہیں۔ یہ مسائل بجا طور پر حل طلب ہیں اورہر حلقہ میں اس کا انتظامی تدارک ضروری ہے لیکن یہ نظام کی تبدیلی اس کا جواز ہر گز نہیں۔ ماضی میں طویل مدت تک صدارتی نظام آمریت کی شکل میں رائج رہا مگراس کے باوجود مسائل جوں کے توں رہے اور کسی نے بھی مسائل کی وجوہات ، حقائق کی نشاندہی اور اس کے صحیح حل کو سچائی سے نمایاں نہیں کیا۔ ایک مشاہدہ کے مطابق کسی بھی نظام میں جو حکومت سماجی انصاف سے جتنی قریب ہو گی اتنی ہی مستحکم ہوگی لیکن سماجی عدل اس لحاظ سے بھی گریز پامقصد ہے کہ یہاں کوئی ایسا مصدقہ معیار موجود نہیں کہ قومی دولت کو معاشرہ کے تشکیلی طبقات میں منصفانہ تقسیم کیا جائے۔ یہ درست ہے کہ لوگ اس حکومت کو تسلیم کر لیتے ہیں جو بہتر حالات کا وعدہ کرے لیکن کسی نظام کی خصوصیت صاحبانِ اقتدار کا وہ سماجی رویہ ہے جس سے ایک انسان کو سماجی اعتبار سے موثر رکھا جا سکے۔ جمہوریت چونکہ طاقت کے بے جا استعمال کی سب سے زیادہ مخالفت کرتی ہے ،اسی لیے وہ ایک مقبول نظام ہے۔کسی ہنگامی صورتحال میں مکمل نجات کی خاطرغیر جمہوری نظام یا آمریت کے بارے سوچنا ایک غیر صحتمندانہ رویہ ہے۔ اسی طرح کئی اچھے اور بّرے اسباب کی بنا پر پُرکشش دکھائی دینے والی کسی شخصیت کا انتخاب بھی فاش غلطی ہے۔ ہمیں اس سے اتفاق ہے کہ عوام کی اخلاقی اور ذہنی صلاحیت کو بلند کرنا سب سے زیادہ اہم ہے کیونکہ سیاست میں بہتری کی ضرورت اس وقت شدت سے محسوس کی جارہی ہے۔ لیکن ہمارے اہل سیاست محض حصولِ اقتدار کے لیے اپنے اقدامات اور ٹی وی چینلز پہ بیٹھے سیاسی مبصرین اپنی لایعنی باتوں اور گمراہ کن تبصروں سے عوام کو جمہوری نظام سے راہِ فرار اختیار کرنے پر مجبور کر رہے ہیں۔ یہی عمل آج سیاست دانوں سے عام مایوسی کا باعث بن رہا ہے جو یقینی طور پر جمہوریت کے لیے تشویشناک ہے۔ سیاست دانوں کی یہ بے توقیری ہر آئینی سیاسی حکومت کو بھی بے وقعت بنا دیتی ہے، اس لیے اہل سیاست کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کو یقین دلائیں کہ اسے موجودہ آئینی اداروں نے موثر ہونے کا موقع دیا ہے لہذا ہمیں اپنے اداروں کو صحیح معنوں میںباوقار اور با اختیار بنانا ہے اور اس کے ساتھ ایک ایسے جمہوری نظام کی حمایت میں ہمہ وقت کوشاں رہنا ہوگا جس میں ہر طرح کے لوگ یکساں بنیاد پر شریک ہوں۔ عوام کی اعلیٰ اخلاقی و ذہنی سطح کی بلندی، بالغ نظری اور آزادی سے حق رائے دہی استعمال کرنا بہت ضروری ہے جو اُنہیں جمہوری نظام کی ذمہ داری قبول کرنے کے لائق بنا دے۔

مزید پڑھیں:  پیغام ِ فرید…اپنی نگری آپ وسا توں''