کیا دریچے موند لینے سے بلارک جائے گی

گزشتہ عام انتخابات کے بعد سے پاکستانیوں کے لیے کوئی اندوہ ربا خبر رہی نہیں بلکہ اندوہ نا ک خبریں ہی چلی آرہی ہیں ، نیپرا نے پھر ہا تھ دکھا دیا کہ بجلی کی قیمت میں سات روپے نو ے پیسے اضافے کی منظوری دید ی ہے ، یہ اضافہ مئی کی ماہا نہ فیو ل ایڈجسٹمنٹ کی مد میں کیا گیا ہے ، حقیقت یہ ہے کہ 2018کے انتخابات ہر پہلو سے اہل پاکستان پر بھاری پڑے ہیں ، اشیا ضروریہ کی قیمتیں ہیں کہ ان کی اڑان آسما ن سے بھی بلند تر ہو تی جا رہی ہیں اب ایل پی جی کی قیمت میں دس روپے فی کلو کا اضافہ بھی کر دیا گیا ہے جس سے گھریلو سلنڈر کی قیمت میں ایک سو بیس روپے کا اضافہ ہو گیا ہے ، حکومت کی جانب سے بتایا جارہا ہے کہ بجلی کے ایندھن کی قیمتیں تین گنا بڑھ گئی ہیں ، یہ کسی حد تک درست بھی ہے کہ روس اور یو کرائن کی جنگ کی وجہ سے فیول نا پید ہو کر رہ گیا ہے ، مغرب کے مالدار ممالک نے اپنی ضروریا ت کے لیے یو کرائن اور روس سے فیو ل کی خریداری کر کے ذخیر ہ اندوزی شروع کر رکھی ہے جس کی وجہ سے عالمی ما رکیٹ میں پرتال ایندھن کا قال پڑ گیا ہے ، لیکن اس میں سابق حکومت کی کچھ کو تاہیوں کا بھی دخل ہے ، لیکن2001ء میں پاکستان کو شدید ترین توانائی کے بحران کا سامنا تھا اور لوڈ شیڈنگ سے عوام بلبلا اٹھے تھے تاہم جب مسلم لیگ ن2013ء میں برسر اقتدار آئی تو اس نے لو ڈ شیڈنگ کے خاتمے کے لیے ٹھو س اقداما ت کر نے کی بجائے تیل اورکوئلہ سے مہنگی بجلی پیدا کرنے کے منصوبے شروع کیے جس سے ایک طرف بجلی کی قیمتوں کا بوجھ عوام پر براہ راست پڑا جبکہ ضرورت اس امر کی تھی کہ اللہ پاک نے پاکستان کو پانی کے ذخیروں کی نعمت سے مالا مال کر رکھا ہے چنا نچہ پن بجلی کے منصوبوںپر کام کیا جا تا تاکہ عوام کو سستی بجلی میسر ہو پاتی ، پی ٹی آئی کی حکو مت کے دوران تما م ترتوجہ قرضے لینے پر گزار دی گئی اور بجلی کی سپلائی کو دھیا ن میں نہیں رکھا گیا ، پی ٹی آئی کے دور میں بجلی کی کوئی قلت نہیں تھیں مگر جن بجلی گھروں کی صفائی ہونا چاہیے تھی اس کی فکر نہیں کی گئی چنانچہ وہ بند کر نا پڑے یو ں بجلی کی قلت نے سر اٹھایا اور لو ڈ شیڈنگ کا عفریت عوام کے سر پر منڈلانے لگا وزیر اعظم شہبا ز شریف نے گزشتہ ما ہ بڑاٹھاٹ جما تے ہو ئے اعلا ن کردیا تھا کہ کسی شہر میں دو گھنٹے سے زیادہ نہ ہو نا چاہیے ،اس اعلا ن سے گھنٹہ بھی فرق نہیں پڑا ، اب بھی آٹھ آٹھ گھنٹے سے زیادہ کی بجلی بندش جا ری ہے ، بیر ون ملک سے کا فی عرصہ بعد ایک اچھی خبر ملی ہے کہ پاکستان کے سپہ سالا ر جنرل قمر جا وید باجو ہ کو سعودی عرب کے سب بڑے اعزاز شاہ فیصل ایو ارڈ سے نواز ا گیا ہے اس سے پہلے اس ایو ارڈ سے مولا نا مودودی کونواز ا گیا تھا ، جنرل قمر باجو ہ کو اس اعزاز سے نواز نا اہل پاکستان کے لیے فخر کی بات ہے اور یہ اس امر کی علامت ہے کہ سعووی عرب جس کے بارے میں گما ن ہو چلا تھا کہ وہ ناراض ہے اب اس نے اپنی نا راضی کو کنا رے کردیا ہے سعودی شہزادہ خالد بن سلمان نے جنرل قمر جا وید باجوہ سے ملا قات کے بارے میں شدید محبت کا اظہا ر کیا ہے کہ انھوں نے اردو زبان میں اپنا پیغام اردو زبان میں ٹیو ٹ کیا ہے یہ سعودی عرب کی تاریخ کا پہلا موقعہ ہے کہ ان کی جانب سے اپنی زبان کی بجائے کسی دوسری زبان میں ٹیوٹ کیا گیا ہے اور یہ محبت کی اتھا ہ گہرائیو ں کا بھی اظہا ر ہے شہزادہ خالد نے اپنے ٹیوٹ میںکہا ہے کہ ” مجھے پاکستانی فو ج کے کما نڈر جنرل قمر جا وید باجو ہ سے ملا قات کر کے خوشی ہوئی ، ملا قات کے دوران دونوں ملکو ں برادر ممالک کے درمیا ن دفاعی اور عسکری شعبے میں دو طرفہ تعاون کو بڑھانے پر تبادلہ خیال کیا گیا ۔شہزادہ خالد بن سلمان کی طرف سے یہ ٹیوٹ پاکستان کے عوام کے لیے ایک براہ راست پیغام ہے ، اسی وجہ سے اردو زبان میں دیا گیا ہے ، تاکہ پاکستان کے عوام تک ان کا پیغام بلا واسطہ پہنچے ، گویا عمر ان خان کے دور میں جن دوست ممالک کی جانب سے ناراضی پیدا ہوگئی ہے اب محسو س کیا جا رہا ہے کہ حالت بہتری کی طرف رخ کر جائیں گے کراچی میں چین کے قونصلر جنرل نے بھی ایک پیغام میں سی پیک کے بارے میں سعید خیالا ت کا اظہا ر کیا ہے ، جس سے توقعات بڑھ چلی ہیں ، آج کل سوشل میڈیا پر ایک اور خبر مقبولیت کے ساتھ گھوم رہی ہے کہ سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل (ر) ظہیر الا سلام تحریک انصاف میں شامل ہو گئے ہیں یہ ویسے کوئی انو کھی خبر نہیں کہلا سکتی کیوں کہ ہر شہری کا حق ہے کہ وہ اپنی پسند کی پارٹی شمولیت کرے ، جب کہ ظہیرالاسلا م نے اس خبر کی تردید ایک سینئر صحافی سے بات چیت کر تے ہوئے کی بقول صحافی کے جنرل (ر)ظہیر الا سلا م نے بتایا ہے کہ انھو ں نے پی ٹی آئی میںشمولیت اختیا ر نہیں کی ہے اور نہ انھو ں نے عمر ان خان سے ملا قات کی ہے ، بلکہ انھو ں نے اپنے گاؤں کی ایک تقریب میں شرکت کی جس میں کمیو نٹی نے آنے والے ضمنی انتخاب میںپی ٹی آئی کے پی پی سات کے امیدوار کی حما یت کا فیصلہ کیا ، جنرل ظہیر کے مطابق یہ برادری کا فیصلہ تھا اور اس کا حصہ ہو نے کی حیثیت سے انھو ں نے فیصلے کااعلا ن کیا ، انھوں نے یہ بھی وضاحت کی کہ اجلا س میں ان کی موجو دگی کو سوشل میڈیاپر غلط رنگ دے کر پیش کیاگیا ہے ، یہ تو ہے کہ اکثر بات کو بتنگڑا بنا کر پیش کردیا جا تا ہے جیسا کہ آج کل سوشل میڈیاپر ایک خاص پارٹی کا میڈیا سیل مصروف ہے تاہم اس اجلا س میں جنرل (ر) ظہیر الا سلام کی شرکت کو کیوں اتنی سنجید گی سے لیا گیا وہ جو کہتے ہیںکہ ہر منظر کا پس منظر ہو تاہے ، جنرل ظہیر الاسلا م کے بارے میں یہ کہا جا تا ہے کہ عمر ان خان نے2014ء جودھرنا دیا تھا اس کی سہولت کا ری میں جنرل ظہیر الاسلام کا کافی سہارا تھا پھر نو از شریف نے بھی پی ڈی ایم کے اجلاس میں اپنی تقریر میں جنر ل (ر) ظہیر الاسلا م کا نا م لے کرکہا تھا کہ ان سے انھوں نے استعفیٰ دینے کو کہا تھا ، بہر حال میڈیا کو ذمہ داری کا احساس کر نا چاہیے ، تاہم اسے مثل کہہ لیں یا کہا وت کہ قدم اسی طر ف اٹھتے ہیں جس طر ف کو دل ہو ، چنانچہ برادری کی تقریب تھی یا کوئی اور تقریب تھی بہرحال صورت یہ برادری کی طرف سے ایک سیاسی پارٹی کی حمایت کی تقریب تھی ،جس میں تحریک انصاف کے امید وار کے لیے ضمنی انتخاب میں حمایت کافیصلہ کیا گیا ، ماضی میں موصوف کا نا م پی ٹی آئی کے ساتھ نتھی ہو تا رہا ہے ، اس لیے میڈیا کو یہ گما ن ہو ا کہ وہ عملی طور پرسیاست میں پی ٹی آئی کے شریک سفر ہو گئے ہیں ۔

مزید پڑھیں:  اک نظر ادھربھی