مشرقیات

پھر حکم ہوا ہے اور حاکم وقت کے ایسے احکاما ت کا ایک پورا پلندہ سرکار کی رٹ کا منہ چڑا رہا ہے،آبی گزرگاہوں کے ارد گرد تجاوزات نے ہمارے ہاں تباہی کی جو داستانیں رقم کی ہیں ہم نے کبھی ان سے بھی سبق نہیں سیکھا، الٹا جب تباہی کا ریلا سب کچھ بہا لیتا ہے تو ہم تنکا تنکا جوڑ کر پھر سے تجاوزات کھڑی کر دیتے ہیں، دریاؤںکے ارد گرد اس قسم کی تجاوزات کا نظارہ کر نا ہو تو ان سیاحتی مقاما ت کا رخ کریں جہاں کے ایک انچ انچ پر سیاحوں کو لوٹنے کا سامان کیا جاتا ہے اور ساتھ میں منہ زور دریاؤں کے ریلے کے رحم وکر م پر لاکھوں افراد کی جان بھی لٹکی ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں کے کئی بااثر افراد نے تو بعض مقامات پر دریا کے پاٹ کے بیچوں بیچ پانی کے اوپر بھی دل پشوری کرنے کا سامان کیا ہوا ہے، دریاؤں کے علاوہ ندی نالوں حتیٰ کہ نہروں پر بھی تجاوزات کی بھر مار ہے اور یہ کوئی دوردراز کی بات نہیں ہے جہاں تک سرکار یا قانون کے لمبے ہاتھوں کی رسائی نہ ہو بلکہ پشاور سمیت دیگر بڑے شہروں کے عین درمیان گزرنے والی نہروں کے کنارے بھی جہاں جس کا دل چاہا دکان سجا لی یا مکان بنا لیا، یقین نہیں آتا تو ایک بار پشاور شہر کی کسی بھی نہر کے کنارے کچھ چہل قدمی کر لیں آپ پورے بازار ان نہروں کے آس پاس حد سے تجاو وز کرکے بسائے دیکھ سکتے ہیں۔ ایک وقت تھا کہ ان نہروں میں مویشی وغیرہ نہلانے پر بھی گجروں کی شامت آجاتی ہے ان نہروں کی انپسکشن پر مامور مالی حضرات سائیکل پر سوار گشت کرتے رہتے تھے پھر اللہ کے فضل سے سائیکل کی جگہ موٹرسائیکل اور بعد میں موٹر تک نے لے لی تاہم یہ ترقی گشت روک دینے کے انعام کا صلہ ہے، اب نہروں کو ان کے کنارے رہنے والوں کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا گیا مویشی نہلانا تو معمولی بات رہی مویشی ان نہروں کے گر د لگائے گئے حفاظتی جنگلوں کے ساتھ باندھ کر لوہے کے جنگلوں کو اکھاڑکر کباڑ کی نذر کرنے کا دھندہ بھی جاری ہے اور ساتھ میں ان نہروں میں مویشیوں کا فضلہ بے دردی سے بہا کر پانی کو آلودہ کرنے کا سلسلہ بھی۔ رہی سہی کسر ان نہروں کے اردگرد پلازے اورمکانات بنانے والوں نے پوری کردی ہے جو اپنے پلازوں اورگھر کا کوڑا کرکٹ ہی ان نہروںکی نذر نہیں کرتے بلکہ گٹر کا پانی بھی ان نہروں میں ڈالا جا رہا ہے۔ اس پر کبھی کسی حاکم وقت کو جوش آتا ہے وہ برہمی کا اظہار کرکے سب کے خلاف بلاتفریق کارروائی کی ہدایت جاری کردیتا ہے ادھر کارروائی کرنے کے مجاز لوگوں کو ہی معلوم ہوتا ہے کہ جو آوے کا آوا بگڑ ا ہے یہ ان کی برسوںکی محنت سے ہی ممکن ہوا ہے اب اسے ٹھیک کرنا ان کے بس کی بات ہی نہیں رہی ویسے بھی اپنی بالائی آمدنی پر کون لات مارتا ہے اس لیے حاکم وقت کی برہمی اور کارروائی کے ہدایت نامے کو ریکارڈ کا حصہ بنا کر بابو لوگ اسے سرد خانے کی نذر کر دیتے ہیں۔

مزید پڑھیں:  ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کی حکمرانی