میڈیکل نہیں آئی ٹی

وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان نے متعلقہ حکام کو نئے بجٹ میں کئے گئے اعلان کے مطابق ضلع چارسدہ ‘ بونیر ‘ ہری پور اور مانسہرہ میں پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت نئے میڈیکل کالجز کے قیام کے لئے ابتدائی کارروائی عمل میں لانے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان اضلاع میں پہلے سے موجود غیر مستعمل سرکاری عمارتوں کا معائنہ کرکے پندرہ دنوں کے اندر رپورٹ پیش کی جائے تاکہ موزوں ہونے کی صورت میں ان عمارتوں میں میڈیکل کالجوں کے قیام کے لئے مزید پیش رفت عمل میں لائی جاسکے ۔انہوں نے حکام کو مزید ہدایت کی ہے کہ ان عمارتوں کا معائنہ پاکستان میڈیکل کمیشن کے طے شدہ معیار کی روشنی میں کیا جائے اور کسی بھی کمی بیشی کی صورت میں انہیں پوری کرنے کے لئے تجاوز بھی پیش کی جائیںبظاہر تو چار اضلاع میں پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت میڈیکل کالجوں کا قیام ایک احسن فیصلہ ہے لیکن ا گر ماہرین کی آراء ‘ ڈاکٹروں کی تعداد ‘ بیروزگاری کی موجودہ صورتحال اور مستقبل کی ضروریات کے حوالے سے جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ اب میڈیکل میں جانے اور ڈاکٹر بننے کا سنہری وقت بیت چکا اب سرکاری و نجی میڈیکل کالجوں سے فارغ ا لتحصیل ڈاکٹروں کے لئے ملازمت کے مواقع تلاش کرنے اور ان کو اطمینان کے ساتھ ا پنے فرائض منصبی ادا کرنے کے لئے موزوں ماحول دینے پر توجہ کی ضرورت ہے گو کہ اب سرکاری میڈیکل کالجوں میں نشستوں پر مقابلہ وتا ہے لیکن نجی میڈیکل کالجوں میں خاص طور پر ڈینٹسٹری کے شعبے میں نشستیں پر کرنے میں مشکلات پیش آنے لگی ہیں جس کی وجہ کھپت میں کمی اور افراد کی زیادہ تعداد ہے یہ الگ بات ہے کہ بعض مالدار والدین ہر قیمت پر اپنے بچوں کو ڈاکٹر بنانے کے لئے میڈیکل کالجوں کی بھاری فیس کے علاوہ عطیات بھی دے کر داخلہ یقینی بناتے ہیں جس کا نتیجہ چار پانچ سال بعد بھاری رقم خرچ کرکے ایک روزگار کے متلاشی کا اضافہ کی صورت ہی میں سامنے آتا ہے وزیر اعلیٰ کے محولہ فیصلے اور اقدامات کو طلب و رسد کے توازن اور رجحان کے ترازو میں تولا جائے تو طب کے شعبے کے مقابلے میں آئی ٹی کی مانگ کہیں زیادہ ہے نجی اور سرکاری شراکت داری سے کسی تعلیمی منصوبے کی مخالفت مطلوب نہیں البتہ جس شعبے میں پہلے ہی کافی سے زیادہ تعلیمی ادارے موجود ہیں بجائے ان میں اضافہ کے اگر جو شعبہ بین الاقوامی سروے اور ماہرین کے مطابق قابل ترجیح اور روزگار کے مواقع سے بھر پور ہے اس شعبے میں تعلیمی ادارے کھولے جائیں تو زیادہ مفید اور موزوں ہو گا۔
بلی کے گلے میں گھنٹی
صوبائی حکومت نے اخراجات کو کنٹرول کرنے کے لئے کفایت شعاری پالیسی کے تحت مختلف اقدامات اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے آئندہ سرکاری محکموں کے لئے نئی گاڑیاں نہیں خریدی جائیں گی جبکہ افسروں اور دیگر ملازمین کے ضروری کاموں کے لئے لیز پر گاڑیاں حاصل کی جائیں گی قبل ا زیں خیبر پختونخوا کے سابق حکومت کے وزیر خزانہ مظفر سید کی سربراہی میں قائم ایک کمیٹی نے سرکاری گاڑیوں کے استعمال کے حوالے سے ایک تفصیلی رپورٹ اس وقت کے حکومت کو پیش کی تھی تاہم اس پر عمل درآمد نہ ہوسکا۔ صوبائی حکومت کی جانب سے اخراجات کو کنٹرول کرنے کے حوالے سے فیصلہ کافی نہیں بلکہ اس کے لئے عزم صمیم درکار ہے تاکہ اس فیصلے کا حشر بھی قبل ازیں کے اس طرح کے اقدامات کا سا نہ ہو بلکہ مشکل امر یہ ہے کہ حکومت کے بعض فیصلوں کا بیورو کریسی ایسا توڑ نکال لیتی ہے کہ حکومتی فیصلے صائب اور احسن ہونے کے باوجود مفید اور ثمر آور ثابت نہیں ہوتے اور ان کے غلط استعمال کے لئے بیورو کریسی حیلے بہانے تراش لیتی ہے گاڑیوں کے استعمال کے حوالے سے ماضی میں حکومتی مساعی بار آورہونے کی بجائے منفی ثابت ہوچکی ہیں بنا ئریں سب سے پہلے اس امر کا تعین ضروری ہے کہ کس عہدے کے افسر کو گاڑی دی جائے اور کس گریڈ کے افسر کوکتنی سی سی گاڑی دی جائے حیلے بہانوں سے گاڑیوں کا غیر مجازہونے کے باوجود جوبے دریغ استعمال جاری ہے اور پٹرول کا بل بھی مختلف مدات میں وصول کرنے کا سلسلہ جاری ہے بہتر ہوگا کہ حکومت سب سے پہلے اس کی روک تھام کرے تمام سرکاری گاڑیاں پول میں جمع کی جائیں اور اس کے بعد باقاعدہ چھان بین کے بعد صرف ضروری سرکاری کاموں ہی کے لئے گاڑیاں اور وہ بھی صرف سرکاری ڈیوٹی کے اوقات کے لئے ہی مہیاکی جائیں اس کو یقینی بنانے کے بعد دوسرے مرحلے میں گاڑیاں لیز پردینے جیسے امور پرکام کیا جائے اس موقع پر اس امر کا تفصیلی جائزہ ممدو معاون ثابت ہوگاکہ سابق وزیر خزانہ کی سفارشات پر عملدرآمد کیوں نہ ہوسکا اس منصوبے کی راہ میں رکاوٹیں کیا تھیں اور اسے کیسے ناکام بنایا گیا یا پھر اس پرعملدرآمد میں پیشرفت کی نوبت ہی نہ آنے دی گئی۔
انتہائی بہیمانہ واقعہ
پشاور میں دیرینہ دشمنی پر مخالف شخص کو اغواء کے بعد قتل کرنے کی اپنی نوعیت کی انتہائی لرزہ خیز واردات نے لوگوں کو ہلا کر رکھ دیا جبکہ مقتول کے ورثاء کے احتجاج کے دوران شہر کی سڑکوں پر کئی گھنٹے ٹریفک جام رہی ۔اس قتل کی جو تفصیلات اب تک سامنے آئی ہیں ان کا بھیانک ہونا اپنی جگہ ‘شقی القلب عناصر سے کسی بھی انتہا کی توقع کی جا سکتی ہے لیکن جس طرح قانون کا مذاق اڑایا گیا اور اس سارے واقعے میں پولیس کا جو کردار ناکامی اور بے بسی کی جو تصویر سامنے آئی ہے وہ لرزا دینے والا ہے کہ اس قدر بہمیت کے مظاہرے اور کھلم کھلا اس کے اظہار کے باوجود علاقہ پولیس نے کوئی کارروائی نہیں کی قتل کی واردات کے بعد بھی اگر پولیس حرکت میں آتی تو قاتلوں کو مقتول کے جسم کا مثلہ کرنے کا موقع نہ ملتا اور بہمیت کی تاریخ رقم نہ ہوتی۔

مزید پڑھیں:  قصے اور کہانی کے پس منظر میں