بکھرے ہوئے دودھ پر مت روئیں

بکھرے ہوئے دودھ پر مت روئیں

بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جس اخلاق پر وہ بڑے ہوئے ہیں اور لوگ ان کے اس اخلاق پر عادی ہو گئے ہیں تو وہ اپنے اس اخلاق کو بدل نہیں سکتے … حالانکہ عقلمند کے نزدیک اپنے اخلاق کو بدلنا اور رویہ تبدیل کرنا کپڑے بدلنے سے بھی آسان ہے۔

ہمارے رویے دودھ کے بکھرنے جیسے نہیں جیسا کہ دودھ کے بکھرنے کے بعد اس کو اکٹھا کرنا ممکن نہیں ہے … بلکہ ہمارے رویے تو ہمارے ہاتھوں کے درمیان ہیں اور ہم اپنے رویوں سے دوسروں کی عادات بھی بدل سکتے ہیں … بلکہ ہم ان کی سوچ اور فکر بھی بدل سکتے ہیں۔

ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ اندلس میں ایک مشہور ترین محمد کے نام کا تاجر تھا ، اس کے اور تین بڑے تاجروں کے درمیان مقابلہ ہوا… ان تینوں نے اپنے درمیان اتفاق کیا کہ ہم اس تاجر کو تنگ کریں گے … تو ایک دن یہ محمد گھر سے اپنی تجارت کے لیے سفید قمیص … اور سفید پٹکا باندھ کر نکلا، راستے میں ان تاجروں میں سے ایک تاجر سے ملا اور اس نے محمد کے سفید پٹکے کو دیکھ کر کہا :
یہ تمہارا پیلے رنگ کا پٹکا کتنا خوبصورت لگ رہا ہے۔

محمد نے کہا تم اندھے ہو گئے ہو یہ تو سفید پٹکا ہے
اس نے کہا نہیں بلکہ پیلا ہے … اور پیلا کلر بہت خوبصورت لگ رہا ہے تو یہ تاجر محمد کو چھوڑ کر چلا گیا … محمد تھوڑا آگے چلا تو دوسرا تاجر ملا …
اس نے محمد کے اس سفید پٹکے کی طرف دیکھ کر کہا …تم اور تمہارا لباس کتنا خوبصورت لگ رہا ہے ، خاص طور پر تمہارا سبز رنگ کا پٹکا زیادہ خوبصورت لگ رہا ہے … محمد نے کہا … اے اللہ کے بندے یہ پٹکا تو سفید ہے۔

اس نے کہا نہیں بلکہ سبز ہے … محمد نے پھر کہا کہ نہیں سفید ہے ، یہ کہہ کر آگے چلا اور محمد بیچارہ پاگلوں کی طرح اپنے ساتھ ہی باتیں کرنے لگا … اور اپنے آپ سے سوال کرتا کہ میرے پٹکے کا رنگ کیا ہے؟ تھوڑی تھوڑی دیر بعد اپنے پٹکے کو دیکھتا اور اپنے آپ کو تسلی دیتا کہ یہ پٹکا تو سفید ہے۔ جب محمد اپنی دکان پر پہنچا تو تیسرا تاجر آ گیا اورکہنے لگا:
اے فلاں ، آج کا دن کتنا اچھا ہے، خاص طور پر آپ کا لباس، اس سے زیادہ خوبصورت آپ کا نیلا پٹکا ۔ تو محمد اپنے پٹکے کی طرف دیکھنے لگا کہ میرے پٹکے کا رنگ کیا ہے ، پھر محمد نے اپنی آنکھوں کو صاف کیا اور اپنے پٹکے کو دیکھ کر تاجر سے کہنے لگا:

اللہ کے بندے میرا پٹکا تو سفید ہے ، تاجر نے کہا کہ نہیں بلکہ نیلا ہے اور خوبصورت لگ رہا ہے … پریشان مت ہونا یہ کہہ کر تاجر چلا گیا تو محمد چلا کرکہنے لگا کہ میرا پٹکہ تو سفید ہے … کچھ دیر اپنی دکان میں بیٹھا اور بار بار اپنے پٹکے کو دیکھتا رہا کہ چوتھا تاجر اس کی دکان میں آیا اورکہنے لگا:
ماشاء اللہ یہ لال رنگ کا پٹکا آپ نے کہاں سے خریدا ہے؟ تو محمد نے بلند آواز سے کہا میرا پٹکہ تو نیلا ہے ، اس تاجر نے کہا نہیں بلکہ لال ہے ، محمد نے کہا نہیں بلکہ سبز ہے … نہیں… نہیں … بلکہ سفید ہے …نہیں بلکہ نیلا ہے …نہیں بلکہ کالا ہے ۔ پھر ہنسنا شروع کر دیا ، پھر چلایا ، پھر رویا اور پھر کودنے لگا۔

ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں اس واقعہ کے بعد میں دیکھتا تھا کہ یہ تاجر اندلس کی سڑکوں پر پاگلوں کی طرح گھومتا تھا اور بچے اس کو کنکریاں مارتے تھے … اگر ان چار آدمیوں نے اس تاجر کی ذہنیت کو ہی نہیں … بلکہ اس کی سوچ کو بھی بدل دیا … تو وہ مہارت کیسی ہو گی جو قرآن و حدیث کی روشنی کے تحت ہو گی اور اس مہارت سے انسان اللہ تعالیٰ کی عبادت کرے ۔

ہراچھی مہارت اپنائو تاکہ خوش و خرم رہو ، اگر آپ کہتے ہو کہ میں نہیں کر سکتا تو میں کہوں گا کہ کوشش کرو… اور اگر آپ نے کہا کہ میں نہیں جانتا تو میں آپ کو کہوں گا کہ سیکھو … کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ’’علم سیکھنے سے آتا ہے اور نرمی نرم لہجہ اختیار کرنے سے آتی ہے۔ ‘‘