خود کو بدلیں

ریاست کے تحت چلنے والے کئی قومی ادارے دیوالیہ ہو کر پرائیویٹ ہاتھوں میں چلے گئے، قومی اداروں کی نجکاری سے ملکی معیشت کو کتنا نقصان ہوا؟ یہ ہمارے موضوع نہیں ہے تاہم قومی اداروں میں جتنے سرکاری ملازم کلیدی عہدوں پر فائز تھے ان کے اثاثوں میں اضافہ ہو گیا، سوچنے کی بات ہے کہ اگر قومی ادارہ مسلسل خسارے میں تھا تو ڈائریکٹرز کے اثاثے کیسے بڑھ گئے؟ مگر یہاں کوئی پوچھنے والا نہیں ہے جو افسران ادارے کی تباہی کے ذمہ دار ہوتے ہیں انہی کو نجکاری کی ذمہ داری بھی سونپ دی جاتی ہے یوں وہ ادارے کو تباہ کرنے سے لیکر نجکاری کے عمل تک مالی مفاد اٹھاتے رہتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کے اندر بھی ایسی ہی صورتحال ہے، ملک کی بڑی سیاسی جماعتیں گزشتہ پچاس ساٹھ برسوں سے سیاسی عمل کا حصہ ہیں اور کئی بار اقتدار میں رہ چکی ہیں اس دوران سیاسی جماعتوں سے منسلک افرادکے اثاثے زمین سے آسمان تک پہنچ گئے۔ پرانی ویڈیوز میں سیاستدانوں کے طرز زندگی اور آج کے طرز زندگی میں نمایاں فرق دکھائی دیتا ہے مگر ملک قرضوں میں ڈوب گیا، عوام کی مشکلات پہلے سے کئی گنا بڑھ گئیں، یہ کیسا خسارہ ہے جس سے ملک اور عوام متاثر ہو رہے ہیں مگر سیاستدانوں کو کوئی فرق نہیں پڑا۔
اس دورانئے میں اگر کسی شخص نے ترقی کی ہے تو وہ انفرادی محنت کا نتیجہ ہے، اہل سیاست نے مگر عوام کو قرضوں کے سوا کچھ نہیں دیا ہے، ایسے حالات میں یہی سیاسی جماعتیں اگر ایک بار پھر دعویٰ کرتی ہیں کہ وہ ملک کی معیشت کو ٹھیک کر دیں گی تو عوام ان کی بات پر یقین کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ اس ضمن میں بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا عوام مایوس ہو کر بیٹھ جائیں، اگر انہی میں سے کسی کا انتخاب نہ کریں تو آخر کیا کریں کیا کوئی باہر سے آ کر ہمارے مسائل ٹھیک کر دے گا؟ یہ اور اس طرح کے متعدد سوالات ہر شہری کے ذہن میں پیدا ہوتے ہیں مگر انہیں اس کا جواب نہیں ملتا ہے۔ ذیل کی سطور میں ہم چند گزارشات پیش کر رہے ہیں ہمیں امید ہے اگر ان گزارشات پر عمل کیا گیا تو ہم اپنے مسائل کا حل بھی پا لیں گے۔
حقیقت یہ ہے کہ ایک مثالی سماج فرد کے کردار اور افراد کی شراکت سے تشکیل پاتا ہے، مگر بدقسمتی سے یہاں کوئی خود کو تبدیل کرنے کیلئے تیار نہیں ہے تو افراد کی شراکت کیسے ہو گی، ایک لمحے کیلئے سوچیں اور خود سے سوال کریں، کیا ہم روز مرہ کے امور میرٹ پر کرتے ہیں، کسی بھی ادارے میں کام پڑنے پر ہم سفارش یا غلط راستہ کیوں اختیار کرتے ہیں، سب کے ساتھ لائن میں لگ کر ہمیں کام کروانا قبول کیوں نہیں ہے؟ تسلیم کہ اداروں میں بیٹھے افراد کرپٹ ہیں لیکن کیا انہیں کرپٹ بنانے میں عوام کا کوئی کردار نہیں ہے، کیا ہم اپنا کام نکلوانے کیلئے فائل کو پہیے نہیں لگاتے ہیں؟ یوں دیکھا جائے تو میرٹ اور انتظار کر کے وقت پر کام کروانے کی بجائے ہم خود غلط راستے کا انتخاب کرتے ہیں، جب افسران کو کرپشن کی لت پڑ جاتی ہے تو وہ عام شہریوں سے بھی کرپشن کی بات کرتے ہیں اور جب تک ان کی مٹھی گرم نہ کی جائے وہ فائل کو آگے نہیں بڑھاتے ہیں۔
ہمارے سماج میں رشوت لینے والے کو تو غلط سمجھا جاتا ہے لیکن جو شخص رشوت دے رہا ہوتا ہے اسے کوئی غلط نہیں سمجھتا حالانکہ جس طرح رشوت لینا جرم ہے اسی طرح رشوت دینے والا بھی جرم میں برابر کا شریک ہوتا ہے۔ ایک لمحے کیلئے سوچیں جب آپ رشوت نہیں دیں گے تو کیا ہمارا کام نہیں ہو گا؟ ایسا ہرگز نہیں ہے کام ضرور ہوگا مگر کچھ تاخیر سے ہو گا لیکن ہم انتظار کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ جب ہم خود غلط راستہ اختیار کرتے ہیں تو سوچیں مثالی سماج کیسے تشکیل پا سکتا ہے، ہم خود اچھا بننے کیلئے تیار نہیں ہیں تو ہماری توقع کے مطابق دوسرے کیسے اچھا بن سکتے ہیں؟ تبدیلی کا آغاز دوسروں سے نہیں بلکہ اپنی ذات سے کریں، اپنے گھر والوں کو اپنی سوچ میں شامل کریں پھر دھیرے دھیرے دائرہ کار دوست احباب تک بڑھائیں یوں ایک فرد ہونے کے ناتے آپ مثالی سماج میں اپنا کردار ادا کریں گے جس میں دیگر افراد کی شراکت ہو گی۔ یہ راستہ عملی ہے اور ذرا مشکل بھی ہے اس کے برعکس آسان راستہ یہ ہے کہ اپنا کام نکلوانے کیلئے ”رانگ وے” اختیار کریں جب کام نکلوا لیں تو نظام کو گالیاں دیں اور چلتے بنیں۔ پاکستان کی تاریخ میں آج تک ایسا ہی ہوتا آیا ہے کہ ہم خود غلط راستہ اختیار کرتے ہیں اور نظام کو گالیاں بھی دیتے ہیں ہم میں سے اکثر یہ سمجھتے ہیں کہ نظام بنانا حکومتوں کا کام ہے، حالانکہ جب ہم ترقی یافتہ ممالک کو دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہاں کے عوام غلط کام کو قبول کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں یوں ہم میں اور مہذب معاشروں میں بنیادی فرق یہ ہے کہ ہم غلط راستے کو چھوڑنے کیلئے آمادہ نہیں ہیں اور مہذب اقوام غلط کو قبول کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ ہمت کریں غلط کو غلط کہنا شروع کریں بھلے اس کا تعلق آپ کی اپنی ذات سے یا اپنے قریبی لوگوں سے ہی کیوں نہ ہو، جب ہم خود کو تبدیل کر لیں گے تو دوسروں کو کہنا اور انہیں تبدیل کرنا آسان ہو جائے گا۔

مزید پڑھیں:  ''چائے کی پیالی کا طوفان ''