عشرہ ذی الحجہ کے فضائل و اعمال

عشرہ ذی الحجہ کے فضائل و اعمال

کوئی دن ایسا نہیں جس میں عبادت اللہ تعالیٰ کے نزدیک ذی الحجہ کے دس دنوں سے پسندیدہ ہو،خوش نصیب انسان رحمت کی اس برسات سے فائدہ اٹھاتے ہیں

(ظفرسلطان)اسلام میں مخصوص ایام کو اہمیت حاصل ہے، انہی مخصوص ایام میں ذی الحجہ کے ابتدائی دس ایام بھی ہیں جنہیں عشرہ ذی الحجہ سے موسوم کیا جاتا ہے، حرمین شریفین میں چونکہ حج ادا کیا جاتا ہے اس لئے وہاں پر ذی الحجہ سے پہلے ہی رونقیں بڑھ جاتی ہیں تاہم عالم اسلام کے دیگر ممالک میں بھی ان ایام میں عبادات کا خاص اہمتام کیا جاتا ہے،

آج کل تو انٹرنیٹ کی سہولت موجود ہے اور کسی کو مناسک حج کو دیکھنے میں دشواری نہیں ہوتی، ورنہ جب انٹرنیٹ کی سہولت نہیں تھی تب ٹی وی پر خطبہ حج کو سننے کے لئے لوگ بے تاب ہوتے تھے اور حج پر نہ جانے والے بھی حج کا احترام کرتے، یوں یہ سلسلہ قربانی تک جاری رہتا تھا۔ کئی بزرگوں کا کہنا ہے کا کہنا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو بخشنے کے بہانے ڈھونڈتا ہے سو ذی الحجہ کے دس ایام کی فضلیت بھی دراصل ایمان والوں کو بخشنے کا ایک بہانہ ہے، خوش نصیب انسان رحمت کی اس برسات سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی بے بہا رحمت اور اس کا احسان عظیم ہے کہ اس نے اپنے بھولے اور بھٹکے ہوئے بندوں کو اپنے در پر پلٹنے اور اپنے دربار سے نوازنے کے مختلف بہانے مقرر فرمائے ہیں۔ خداوند اپنے بندوں کو بخشنے کیلئے مختلف اوقات میں مواقع فراہم کرتا ہے، جیسے اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت کے مطابق تمام انسانوں کو برابر پیدا نہیں کیا۔ انبیا کرام علیمہم السلام کو تمام بنی آدم میں خصوصی شرف عطا کیا، ان کے بعد حضرات صحابہ کرام ؓ اور ان کے نقش قدم پر چلنے والوں کے مراتب اور درجات بلند فرمائے، اسی طرح تمام جگہوں کو یکساں نہیں بنایا، کل روئے زمین میں جو مرتبہ حرم مکی، حرم مدنی اور مسجد اقصیٰ کو حاصل ہے وہ کسی دوسری جگہ کو نہیں۔ مساجد اور معابد کو عزت اور شرف عطا کیا اس سے عام زمین محروم ہے۔ انسان اور جگہوں کی طرح اللہ تعالیٰ نے زمانوں میں سے کچھ اوقات کو اپنے خاص قرب، مغفرت اور بخشش کا ذریعہ بنایا ہے۔
ان اوقات میں سب سے اہم رمضان المبارک کا مہینہ ہے۔ اس کے بعد ذی الحجہ کے ابتدائی دس دنوں کو خصوصی فضلیت عطا فرمائی۔ اکثر مفسرین کرام ؒ کے مطابق قرآن مجید فرقان حمید میں، سورۃ الفجر کی اس آیت ’’ولیال عشر‘‘ ’’قسم ہے دس راتوں کی‘‘ ۔ سے مراد یہی ذی الحجہ کی ابتدائی دس راتیں ہیں۔ نیک عمل کیلئے سب سے موزوں ایام یہی ہیں۔

’’حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، کوئی دن ایسا نہیں کہ جس میں نیک عمل اللہ کے ہاں ان دس (ذی الحجہ کے) دنوں کے عمل سے زیادہ پسندیدہ ہو‘‘ (بخاری)

عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں ذوالحجہ کے پہلے دس ایام کا ذکر ہو رہا تھا تو آپ نے فرمایا کسی دن میں عمل کرنا اللہ کے نزدیک ذوالحجہ کے دس ایام سے افضل نہیں ہے عرض کیا گیا اے اللہ کے رسول! کیا اللہ کی راہ میں جہاد کرنا بھی اس کے برابر نہیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی عظمت اور بڑھا دی اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد بھی ان ایام کے عمل خیر سے افضل نہیں ہے۔ ہاں وہ شخص جو جان و مال لے کر نکلے اور اللہ کی راہ میں جہاد کرے کوئی چیز بھی واپس نہ لائے (بلکہ شہید ہو جائے)۔ (مسند ابی دائود اور ترمذی)

ذوالحجہ کے خاص اعمال
’’حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رحمت للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ کے نزدیک ذی الحجہ کے دس دنوں سے زیادہ عظمت والا کوئی دن نہیں اور نہ ہی ان دنوں کے عمل سے اور کسی دن کا عمل زیادہ پسندیدہ ہے۔ لہٰذا تم لوگ ان دنوں میں تسبیح( سبحان اللہ) تہلیل(لا الہ الا اللہ) تحمید ( الحمد للہ) اور تکبیر(اللہ اکبر) خوب کثرت سے کہا کرو۔‘‘(طبرانی)

’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی محترم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : کوئی دن ایسا نہیں جس میں عبادت اللہ تعالیٰ کے نزدیک ذی الحجہ کے دس دنوں سے پسندیدہ ہو۔ ذی الحجہ کے دس دنوں میں سے ہر دن کا روزہ (ثواب کے اعتبار سے) ایک سال کے روزوں کے برابر ہے اور اس کی ہر رات کی عبادت شب قدر کی عبادت کے برابر ہے۔(مجمع الزوائد، ترمذی)
’’ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ فخر دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جب ذی الحجہ کا مہینہ شروع ہو جائے اور تم سے کسی کا قربانی کا ارادہ ہو تو اپنے بال اور ناخن نہ کاٹے۔‘‘(مسلم، ابودائود، ابن ماجہ)

نویں ذی الحجہ کے روزے کی فضلیت
’’حضرت ابوقتادہ انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: یوم عرفہ (نویں ذی الحجہ) کے روزے کے بارے میں، میں اللہ تعالیٰ سے امید رکھتا ہوں کہ وہ اس کی وجہ سے ایک سال پہلے اور ایک بعد کے گناہ (صغیرہ) کفارہ فرما دیں گے۔‘‘ (مسلم)
’’حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس شخص نے دونوں عیدوں(عید الفطر، عیدالاضحیٰ) کی راتوں کو ثواب کا یقین رکھتے ہوئے قیام کیا (یعنی فرائض و نوافل نمازیں پڑھیں) تو اس کا دل اس دن نہیں مرے گا جس دن (اور لوگوںکے) دل مر جائیں گے۔ (ابن ماجہ)

’’حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس شخص نے (اللہ تعالیٰ کے ذکر اور عبادت سے) پانچ راتیں زندہ رکھیں، اس کیلئے جنت واجب ہو گئی۔ (وہ راتیں یہ ہیں) آٹھ ذی الحجہ کی رات، عرفہ(نویں ذی الحجہ) کی رات، عیدالاضحیٰ کی رات، عید الفطر کی رات اور پندرہویں شعبان کی رات۔‘‘(الترغیب)

ان احادیث طیبہ سے معلوم ہوا کہ ذی الحجہ کی راتوں میں اللہ کی رحمت کیسے چھم چھم برستی ہے۔ انعامات اور مہربانیوں کا کیا پرلطف وقت ہوتا ہے۔ وہ محبوب مولا جس کی رحمت کے بارے میں جس نے کہا، بالکل سچ کہا: ’’حق تعالیٰ کی رحمت تو بندوں کے نوازنے کے بہانے ڈھونڈتی ہے، قیمت نہیں مانگتی‘‘
نجانے ہماری زندگیوں میں کتنے ہی ذی الحجہ آئے اور چلے گئے لیکم ہم اس نیکیوں کے موسم اور سیزن کی قدر نہیں کرسکے۔ نہیں کہا جا سکتا کہ آئندہ پھر کس کو کتنے سال یہ پربہار دن اور راتیں نصیب ہوتی ہیں، اس لئے اپنے نفس کو آمادہ کریں اور اس ذی الحجہ کو اپنے رب جل شانہ کی یاد اور اس کے نام سے آباد کر لیں۔