فنانس بل میں بوجھ میں اضافہ کرنے کی منظوری

فنانس بل کی کثرت رائے سے منظوری کے ساتھ ہی پٹرولیم مصنوعات پر 50 روپے فی لٹر لیوی عائد کر دی گئی ہے جو بتدریج وصول کی جائے گی۔ وزیر مملکت برائے خزانہ کے مطابق جو تبدیلیاں کی گئی ہیں وہ گزشتہ حکومت کی آئی ایم ایف کے ساتھ طے کردہ ہے، ہم تو صرف ذمہ دار ملک کی حیثیت سے ان وعدوں پر عمدرآمد کر رہے ہیں۔ قومی اسمبلی نے تاجروں سے بجلی کے بلوں کے ذریعے سیلز ٹیکس وصول کرنے سے متعلق شق کی بھی منظوری دی جب کہ تنخواہ دار طبقے کو دیا گیا انکم ٹیکس ریلیف کا بھی خاتمہ کردیا گیا، دریں اثناء وزیراعظم شہباز شریف نے ایک جانب آئی ایم ایف سے قرضہ ملنے کی نوید سناتے ہوئے کہا کہ ہماری اصل منزل خود انحصاری ہے، خوش آئند خیالات کا اظہار کرکے خود انحصاری کی منزل کا حصول ممکن نہیں ہوسکتا حقیقی صورتحال یہ ہے کہ ملکی قرضوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور پاکستان نے صرف رواں مالی سال کے دوران گیارہ ماہ میں 13 ارب 53 کروڑ ڈالر سے زائد کا غیر ملکی قرضہ لیا ہے جس میں سعودی عرب سے ملنے والے تین ارب ڈالر بھی شامل ہیں ماضی سے لیکر حال تک ہر حکومت قرضے لیتی رہی غیر ملکی قرضوں کے حصول کے بعد بجائے اس کے کہ کفایت شعاری سے کام لیا جاتا اور ممکنہ مدت کے اندر قرض واپسی کی منصوبہ بندی کی جاتی اس بوجھ میں اضافے کا سلسلہ جاری رہا اور آج نوبت ملکی خود مختاری کو گروی رکھنے کی آگئی ہے یہ خیال ہی پریشان کن ہے کہ اب مزید رہن رکھنے کو بھی کچھ باقی نہیں تو آئندہ کی نسل اور ملک کے مستقبل کا کیا ہوگا؟ افسوسناک امر یہ ہے کہ جو قرضے جس مقصد کیلئے لئے گئے ان کا استعمال انہی مدات میں بھی نہیں ہوا یوں ملک پر بوجھ بڑھتا گیا مگر مسائل و مشکلات میں کمی نہیں آئی جس کے باعث آج ملکی معیشت قرضوں کی معیشت بن چکی ہے اور ملک کو قرضوں پر قرضے لے کر چلایا جا رہا ہے درپیش صورتحال میں اگرچہ ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کا مژدہ سنایا جا رہا ہے لیکن جاری حالات میں اس امر کا تعین مشکل ہے کہ ملک سخت مشکل سے نکل آیا ہے حالات سے لگتا ہے کہ ابھی مزید سخت وقت اور حالات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے وطن عزیز کی دوہری مشکل معاشی حالات کے ساتھ ساتھ سیاسی حالات اور عدم استحکام بھی ہے سیاسی مخالفت اور ذاتی مفادات کی جنگ میں الجھے ہونے کے باعث کسی بھی حکومت کو یکسوئی میسر نہیں ہوئی جس کے نتیجے میں ہم آج تک یہ طے نہیں کر پائے کہ سخت معاشی حالات سے کیسے نکلا جائے اب حکومت نے نئے مالی سال سے مزید سخت فیصلے کئے ہیں پیٹرولیم مصنوعات کی گرانی کے باعث ہر عام آدمی اور متوسط طبقہ بری طرح متاثر ہوا ہے اس امر کا اندازہ اس بات سے لگایا جا
سکتا ہے کہ پٹرولیم مصنوعات کے استعمال میں بیس فیصد کمی آگئی ہے اور اب غیر ضروری سفر اور گاڑی کے استعمال کی عیاشی کا متحمل نہیں ہوا جا سکتا مہنگائی کا عروج جاری ہے البتہ پٹرول کے استعمال میں کمی سے درآمدی بل میں کمی کی صورت میں ایک مثبت چیز سامنے آئی ہے اگر حالات سے مجبور ہو کر ایسا کیا جاسکتا ہے تو قبل ازیں زیادہ نہیں تو تھوڑی بہت گنجائش ہو سکتی تھی مگر مین حیث القوم ہم ابھی بھی اس طرح کی سعی کی طرف متوجہ نہیں ہم میں اپنی مدد آپ کفایت شعاری اور حکومت سادگی و بچت کی طرف ابھی پوری طرح متوجہ نہیں ہے اور ہم قرض کی مے پی پی کر اپنی فاقہ مستی کے رنگ لانے کے منتظر ہیں مگر یہ ممکن نہیں ہمیں بطور حکومت نہیں بلکہ بطور قوم اب تو تعیشات اور فضولیات سے کنارہ کرنے کی ضرورت ہے درآمدی بل میں کمی کیلئے غیر ملکی مصنوعات کے استعمال کو سرے سے ترک کیا جائے تو کچھ تو بوجھ ہلکا ہوسکتا ہے البتہ ملکی پیداوار اور مصنوعات کے معیار کو ترقی دینی ہوگی تاکہ بہتر متبادل میسر آئے حکومت نے بجٹ میں عوام کا خیال رکھنے اور بعض ریلیف کا جو وعدہ کیا تھا فنانس بل کی منظوری کے وقت سبھی مراعات کو نہ صرف واپس لیا گیا بلکہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ریکارڈ اضافے کے بعد اب بھاری لیوی کا بھی بتدریج نفاذ ہونے جا رہا ہے جسے سابق حکومت کے گلے ڈال کر بری الذمہ نہیں ہوا جا سکتا ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ عوام پر مہنگائی کا مزید بوجھ ڈالنے کی بجائے ان کی قوت خرید بڑھانے کیلئے اقدامات پر توجہ دی جائے حکومت کا یہ فیصلہ بہت عجیب ہے کہ ایک جانب حکومت چالیس ہزار روپے ماہوار مشاہرہ لینے والوں کو امداد کا مستحق سمجھ کر ان کی مالی مدد کی خواہاں ہے تو دوسری جانب پچاس ہزار روپے سے زائد تنخواہ پر ٹیکس عائد کر رہی ہے یوں حکومت صرف آٹھ ہزار روپے سے کچھ زیادہ کی آمدنی کو گویا ٹیکس کے قابل سمجھتی ہے اور پچاس ہزار روپے سے کچھ ہی زیادہ تنخواہ پر ٹیکس کی کٹوتی ہوگی جو تنخوار دار طبقے کو ریلیف دینے کے وعدے کی سراسر خلاف ورزی ہے اور عام سرکاری ملازمین سے بھی ٹیکس وصولی ہے فنانس بل کی منظوری کے وقت فیصلوں اور اعلانات کے باعث عام آدمی اور تنخواہ دار طبقہ بشمول سرکاری ملازمین غرض سبی سخت متفکر ہیں جب کہ حکومت تمام تر دعوؤں کے باوجود معیشت میں ذرا بہتری لانے میں کامیاب نہیں ہو پائی ہے ایسے میں خود مختاری اور خو انحصاری جیسی نعمتوں کا خواب دیکھنا مجنوں کی بڑ ہی قرار پائے گا حکومت عوام پر بوجھ کم کرنے کی بجائے اضافے کو اگر خود انحصاری سمجھتی ہے تو اپنی جگہ وگرنہ ہم خود انحصاری تو درکنار خدانخواستہ دیوالیہ نہ ہو جائیں کیا اب بھی سیاسی و ذاتی مفادات اور مخاضمتیں اہم رہیں گی یا پھر مشترکہ و اجتماعی مساعی سے ملک کو ان حالات سے نکلنے کی ٹھان لی جائے گی اور ایک نئے عزم و منصوبہ بندی کے ساتھ قوم و حکومت و ریاست ان حالات سے نکلنے کے جتن میں سرخرو ہونے کی تدبیر کریں۔

مزید پڑھیں:  ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کی حکمرانی