پنجاب کے بحران کا حل یا نیا بحران ؟

وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب کے حوالے سے قانونی جنگ لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے سے تمام نہیں ہوئی بلکہ سپریم کورٹ تک جا پہنچا ہے مگر پنجاب میں عثمان بزدار کے استعفے کے بعد سے پیدا ہوا آئینی بحران ایک طرح سے ابھی ختم نہیں ہوا۔ دوسری طرف لاہور ہائیکورٹ کی جانب سے الیکشن کمیشن کو پی ٹی آئی کے مخصوص نشستوں سے محروم ہونے اولے ارکان کی جگہ پانچ ارکان کا نوٹیفکیشن جاری کرنے کا حکم انٹرا کورٹ اپیل میں چیلنج کیا جاچکا ہے غالبا اسی لئے عدالت نے منحرف ارکان کے 25 ووٹ شمار نہ کرنے کو کہا ہے ۔ وزیراعلیٰ کے انتخاب کے لئے مقررہ آئینی تعداد 186ارکان کی حمایت ثابت کرنا فی الوقت دونوں فریقوں کے لئے ممکن نہیں۔ مسلم لیگ (ن)177 ارکان کی حمایت رکھنے کا دعویٰ کررہی ہے۔ پی ٹی آئی اور ق لیگ کے اتحاد کے پاس فی الوقت 168 ارکان ہیں۔ حمزہ شہباز کے انتخاب کے وقت انہیں 197ووٹ ملے تھے اس وقت(ن) لیگ کے 4ناراض ارکان نے انتخابی عمل میں حصہ لینے کی بجائے واک آئوٹ کرنے والوں کا ساتھ دیا تھا۔ ان چار میں سے تین ارکان بھی
اپنی جماعت میں واپس جاچکے۔ اب اگر 197 ووٹوں میں سے ڈی سیٹ ہونے والے 25 ارکان کے ووٹ منہا کرکے گنتی ہوتی ہے تو نتیجہ بظاہر یہ ہوگا کہ حمزہ شہباز کے 175 ووٹ ہیں۔(ن) لیگ کے ناراض ارکان نے چونکہ اس وقت ووٹ نہیں دیا تھا انہیں عددی پوزیشن میں شامل کرنا ممکن نہیں ہوگا۔ اس حساب سے پی ٹی آئی اور ق لیگ کے اتحاد کے پاس ابھی 168 ارکان ہیں جبکہ آئینی طور پر 186 ارکان کی حمایت سے وزیراعلیٰ منتخب ہوتا ہے ۔ ان حالات میں عدالتی حکم پر 25ووٹ منہا کرکے ہونے والی گنتی اگر انتخابی قانون کے تقاضوں کو پورا نہیں کرتی تو کیا ہوگا؟ بعض قانونی ماہرین کے خیال میں 186 ارکان کی حمایت اس صورت میں لازمی ہے جب ایوان عددی طور پر مکمل ہو اس وقت 20 نشستوں پر ضمنی انتخابات کے لئے مہم جاری ہے
5مخصوص نشستوں کا معاملہ عدالت میں ہے۔ ایوان کی عددی پوزیشن موجودہ ارکان ہوں گے ان میں سے اکثریت ثابت کرنے والا ہی وزیراعلیٰ ہوگا۔ اس رائے سے اختلاف کرنے والے قانون دانوں کا موقف ہے کہ عدالتی حکم بہت واضح ہے۔ 25ارکان کا ووٹ نکال کر دوبارہ گنتی کرائی جائے وزیراعلیٰ کے لئے مطلوبہ نمبر(تعداد) حاصل نہ ہونے کی صورت میں دوبارہ انتخاب کروایا جائے۔
وزیراعلیٰ کے انتخابی عمل کی گنتی کالعدم قرار دینے کے فیصلے سے پیدا ہونے والے آئینی بحران پر قانونی ماہرین کی مختلف آرا اپنی جگہ یقینا اہمیت کی حامل ہیں، عددی پوزیشن کے حوالے سے انتخابی قوانین بھی واضح ہیں۔ اس سے اہم سوال یہ ہے کہ وزیراعلیٰ کے انتخابی عمل کی گنتی کالعدم قرار دیئے جانے کے بعد انتخابی عمل سے اب تک کے اقدامات اور صوبائی بجٹ سمیت دیگر معاملات کی قانونی حیثیت کیا ہوگی؟ بجٹ اجلاس میں پنجاب اسمبلی واضح طور پر دو حصوں میں تقسیم رہی حکومت نے بجٹ اجلاس ایوان اقبال میں منعقد کیا اور سپیکر اپوزیشن ارکان کو لے کر اسمبلی ہال میں اجلاس کرتے رہے۔ یہ
کہنا غلط نہ ہوگا کہ اپریل سے شروع ہوا پنجاب کا آئینی بحران ختم نہیں ہوپارہا۔ جمعرات کے عدالتی فیصلے نے جہاں ایک معاملہ طے ہوا وہیں تین دوسرے تنازعات نے جنم لے لیا۔ شخصی انانیت آئینی بحران کے حل میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ شخصی انا کی چکی کے دو پاٹوں میں صوبے کے عوام پس رہے ہیں۔ عدالتی فیصلوں کو انصاف اور سچ کی فتح قرار دینے کا اپنا اپنا معیار ہے۔ گزشتہ فیصلے پر(ن)لیگ اور اس کے اتحادی خوش تھے تو حالیہ فیصلہ پر کچھ دیر کیلئے پی ٹی آئی اور اتحادی خوش ہوئے ۔ اس امر پر
سنجیدگی سے کوئی بھی غور کرنے کو تیار نہیں کہ صوبہ کے عوام اور نظام ہر دو کا کیا قصور ہے۔ ثانیا یہ کہ آج جمعہ کی سپہر منعقدہ اجلاس میں عدالتی حکم پر 25ووٹ منہا کرکے جو نتیجہ آئے گا اسے قانونی حیثیت مل سکے گی یا تحریک انصاف متقاضی ہوگی کہ 186 کی عددی اکثریت والے معاملے کی روشنی میں انتخابی عمل ازسرنو ہو ؟ ۔ 25ارکان ڈی سیٹ ہیں 20نشستوں پر ضمنی الیکشن ہونے ہیں 5مخصوص نشستوں کا معاملہ دوبارہ عدالت میں ہے۔ یہ وہ تلخ حقائق ہیں جو اس امر کی تائید کرتے ہیں کہ آئینی بحران ختم ہونے کی بجائے مزید سنگین ہوگا اس کی سنگینی میں اضافے کی ہر دو صورتیں بہت واضح ہیں اولاً (ن)لیگ کا موقف اور ثانیا سپیکر جوکہ خود بھی وزارت اعلیٰ کے امیدوار ہیں، کا بطور سپیکر پنجاب اسمبلی کی حدود میں اپنی عملداری پر مصر ہونا۔ ان حالات میں صرف یہ توقع ہی کی جاسکتی ہے کہ سیاسی قائدین فہم و فراست کا مظاہرہ کریں اور ایسے حالات پیدا نہ ہونے دیں جو سیاسی انارکی کا دروازہ کھلنے کا موجب بنیں۔ اس امر پر دو آرا ہرگز نہیں کہ پی ٹی آئی کے ڈی سیٹ ہونے والے 25ارکان کا وزیراعلیٰ کے انتخاب کے وقت پارٹی پالیسی کے برعکس ووٹ دینا آئینی، قانونی، اخلاقی اور سیاسی اعتبار سے درست نہیں تھا۔ بہرطور فلور کراسنگ کے اس ناپسندیدہ عمل پر الیکشن کمیشن کا فیصلہ اور پھر انتخابی عمل شروع ہوچکا۔ اصل مسئلہ بہرطور یہی ہے کہ کیا ارکان کی موجودہ تعداد میں سے اکثریت رکھنے والا وزیراعلیٰ ہوگا یا 186ارکان کی حمایت لازم ہے؟ قانونی ماہرین کی آرا ملی جلی ہیں۔ خود عدالتی فیصلے کی وہ سطور بھی تشریح طلب ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ 25منحرف ارکان کے ووٹ منہا کرکے گنتی کی جائے۔ مطلوبہ تعداد نہ ہوتو دوبارہ انتخابات کروائے جائیں ۔ مطلوبہ تعداد ایوان کے حاضر ارکان (موجودہ تعداد)قرار پائے گی یا لازماً 186 کی اکثریتی عددی پوزیشن؟ گو قوانین بہت واضع ہیں کہ دوسری رائے شماری میں اکثریت ثابت کرنے والا ہی وزیر اعلیٰ ہوگا یقینا یہ معاملہ خود ایوان میں بھی زیرغور آئے گا۔ امید ہی کی جاسکتی ہے کہ فریقین اس معاملے کا بردباری سے حل تلاش کرلیں گے۔

مزید پڑھیں:  ڈیٹا چوری اور نادرا؟