معاشرے میں رواداری کی اہمیت و ضرورت

اخبارات میں یہ خبریں تسلسل سے پڑھنے کو ملتی ہیں کہ آپس میں کھیلتے ہوئے بچوں کی معمولی سی لڑائی پر ان کے والدین بھی آپس میں اُلجھ پڑے تو کہیں گھریلو ناچاقی نے خونی رشتوں کو دشمن بنا دیا۔ کل مقامی مارکیٹ میں ایک باریش دکاندار کسی نوجوان کو اس کی والدہ کی موجودگی میں بّرا بھلا کہہ رہا تھا، اس کے یوں شور مچانے اور گالم گلوچ کی وجہ یہ تھی کہ نوجوان نے اپنی موٹر سائیکل ان کی دکان کے آگے کھڑی کر دی۔ اس حوالہ سے اگر اپنے ارد گرد جائزہ لیں تو پورے معاشرہ میں ہر جگہ افراتفری اور دنگا فساد جاری ہے ۔آپ کہیں بھی چلے جائیں ،بے رخی اور ناشائستگی کے روئیے سے واسطہ پڑتا ہے۔یوں لگتا ہے کہ ہم سب علم ، عمل، احساس اور ایمان کے تناظرمیں منافقانہ رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں ۔ اسلام کے اصولوں سے منحرف اور اس کے منافی عمل پیرا ہیں جبکہ زندگی میں لا یعنیت کے پرستار بن چکے ہیں ۔ اسلامی رواداری کے اہم درس کو بھول کرہم میں ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا حوصلہ نہیں رہا۔ہم میں وہ علم اور لحاظ نہیں ہے جو انسان کی فطرت کو راست طریقے پرسمجھنے میں مدد دے سکے۔ مخالفت اور تکذیب کرنے کے عمل کو چھوڑ کر ہمیں ایک دوسرے کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ لوگوں کے ساتھ معاملات ،بہتر تعلق اور اچھائی میں جو تصور اور نظریہ مسلمانوں کی رہنمائی کرتا ہے ،وہ دراصل رواداری ہے جو اسلام کے روشن اور اہم افکار میں سے ایک ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی پہچان کے لیے قومیں اور برادریاں بنا دیں۔مومن جس طرح اللہ کی وحدانیت پر ایمان رکھتا ہے اسی طرح انسانی مخلوق کی نسلی ، قومی، لسانی اور دینی تنوع کو بھی مانتا ہے۔ ہماری دنیاوی اور معاشرتی زند گی میں یہ انسانی اختلاف ہر جگہ موجود ہے ۔ مسلمانوں کا یہ عقیدہ ہے کہ ہر انسان معزز و محترم ہے کیونکہ یہ اللہ کا فرمان ہے کہ ہم نے بنی آدم کو بزرگی دی ہے۔ یہ فرمان اور عطا کردہ عزت ہر انسان کے لیے افضل مقام اور احترام کا حق واجب ٹھہراتی ہے۔ اسی باعث اسلام تمام انسانوں کو ایک خاندان کے طور پر دیکھتا ہے۔ قران کی نظر میں انسان کی تکریم صرف انسانیت اور آدمیت کی وجہ سے ہے۔اس میں کسی کے رنگ،نقش،زبان، علاقہ ، خاندان اور یہاں تک کہ کسی کے دین کو بھی دخل حاصل نہیں ہے۔ اس انسانی احترام کے حکم کی موجودگی میں یہ ہرگز جائز نہیں کہ کسی انسان کی بے عزتی ہو اور کسی عمل سے اُسے تکلیف پہنچائی جائے۔
قران مجید نے تمام انسانوں کو مخاطب کیا ہے ” لوگو ! اپنے رب سے ڈروجس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا۔اُس خدا سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنے حق مانگتے ہو۔اور رشتہ و قرابت کے تعلقات کو بگاڑنے سے پرہیز کرو،یقین جانو کہ اللہ تم پر نگرانی کر رہا ہے”حجة الوداع کا خطبہ دراصل وہ پہلا انسانی دستور ہے جس نے انسان کے حقوق اور احترام کی اہمیت کو لازمی قرار دیا ہے۔ بسا اوقات لوگ مختلف وجوہات کی وجہ سے ایک دوسرے کے مخالف بن جاتے ہیں ،ان اختلافات کی نوعیت کچھ بھی ہو ،کبھی ابدی اور دائمی نہیں ہوتے ۔دل بدل جاتے ہیں، اپنے بیگانے بن جاتے ہیں اور کل کے دشمن بعد ازاں دوست بھی بن جاتے ہیں۔ یہ تبدیلی انسانی تعلقات میں پائی جاتی ہے۔ لہذا یہ جائز نہیں کہ انسان اپنی عداوت میں تمام حدود پار کر لے اور صلح کرنے کی بجائے انسانی جان کا دشمن بن بیٹھے۔ اللہ بڑی قدرت رکھنے والا ہے جو دلوں کو جیسا چاہتا ہے ،اُلٹ پلٹ کرتا ہے اور بڑا غفور ورحیم ہے۔ وہ اپنے اُن بندوں پر بہت ہی مہربان ہے جو اپنے دلوں کو کینہ اور بُغض جیسی آلایشوںسے صاف کر لیتے ہیں۔ یہ اُسی رواداری کا نتیجہ ہے کہ انسانی عداوتیں دائمی نہیں ہوا کرتیں۔ اسی طرح دینی رواداری میںسماجی عدل و انصاف کا قیام انسانی معاشرے کا لازمی جز ہے۔مسلمان کا یہ ایمان ہے کہ اللہ عدل کا حکم دیتا ہے اور انصاف اُسے پسند ہے،وہ اچھے اور اعلیٰ اخلاق کو اپنانے کی دعوت دیتا ہے خواہ مشرکین کے ساتھ معاملات طے کیے جارہے ہوں۔ وہ ظلم کو کسی شکل میں پسند نہیں کرتا۔اس حوالہ سے اُن کا فرمان ہے ” کسی گروہ کی دشمنی تم کو اتنا مشتعل نہ کر دے کہ انصاف سے پھر جاؤ،عدل کرو ،یہ خدا ترسی سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے”۔ رواداری کا سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ مخالفین کے ساتھ بہتر انداز اور اچھے الفاظ میں بات چیت کی جائے۔ نہایت شائستہ اور مہذب طریقہ میں اپنی بات کی جائے اور پھر بڑے حوصلہ سے مخالف کی بات سنی جائے۔ احسن طریقہ سے مکالمہ دراصل وہ گفتگو ہے جس کی دعوت ہم اپنے دوستوں کے علاوہ مخالفین کو بھی دیتے ہیں اور یہ ایک ایسا واسطہ ہے جس سے دل کے اندر تناؤاور دُوری پیدا نہیں ہوتی۔ کوئی ایسا شر جنم نہیں لیتا جو کسی فتنے یا فساد کا باعث بنے۔ ایسی بات چیت اور مکالمہ دلوں کو جوڑنے اور قریب کرنے کا سبب بنتا ہے۔ آج اس معاشرے میں رواداری کی پہلے سے کہیں زیادہ ضرورت ہے کہ کوئی عداوت اور رنجش پیدا نہ ہو سکے۔

مزید پڑھیں:  تزئین و آرائش بعد میں ،پہلے شہر بچائو