عدل عمر انی

گفتگو کا موضو ع دیکھ کر قارئین کرام کا دھیا ن کسی اور طرف چلا جائے اس سے پہلے تشریح کیے دیتے ہیں کہ تمام اردو لغت میں عدل عمر انی کے معنی سماجی انصاف ہے ، عوام کے ساتھ انصاف کر نا ، مساوات ،سماجی انصاف ، برابری وغیرہ ، تاہم عام طور پر عدل اور انصاف کوایک ہی معنی میںلے لیا جا تا ہے جب کہ دونوں میں واضح فرق ہے اس فرق کو ایک مثال سے سمجھ لیجئے کہ تین ایسے افراد ہیں جن میں ایک نوعمر ، دوسر ا جوان اور تیسر ضعیف العمر ہے، ایک صاحب آپ کو تین روٹیا ں دیتے ہیں کہ ان تینو ں میں تقسیم کر دو آپ اگر ایک ایک روٹی تینو ں کو دیدیتے ہیں تو یہ ہوا انصاف کیو ںکہ تینوں کو برابری کا حصہ مل گیا جب کہ عدل یہ ہے کہ نوعمر کی بھوک ضعیف العمر شخص سے کم ہوتی ہے اس لیے اس کو آدھی روٹی ملنی چاہییے ، ضعیف العمر کی بھوک جو ان سے کم اور نو عمر بچے سے زیا دہ ہوتی ہے اس لیے بوڑھے کا حق ایک روٹی ہے اور جوان کی بھوک دونوں سے زیا دہ ہوتی ہے تو اس کے حصہ میں ڈیڑ ھ روٹی آنا چاہیے ،دوسرے الفاظ میں ہر شخص کو اس کا حصہ اس کے حق کے مطابق ہونا چاہیے یہی عدل عمرانی ہے چنانچہ اسی فرق کی بنا پر جہا ں سے آدمی کو عدل یا انصاف حاصل ہو تا ہے اس کو کمر ہ انصاف نہیں کہا جا تا بلکہ کمر ہ عدالت کہا جا تا ہے اور ایک اچھا عادل شخصیا ت پر نظر نہیں رکھا کرتے وہ عدل پرقائم رہتے ہیں چنا نچہ عدل کے عمل میں مصالحت یا ثالثی نہیں چلا کرتی اصول وضوابط اورقواعد کی علمداری ہو ا کرتی ہے ،کچھ سال پہلے بابارحتمتے کا ذکر ایک معزز شخصیت نے کیا تھا کہ وہ منجھی پر بیٹھ کر گاؤں کے تنازعات کا فیصلہ کیا کرتاتھا پھر اس کے بعد بابارحمتے انصاف کے حوالے سے ایک علا مت بن گئی اور عوام میں مثال بن کر گھومنے لگی ، اب با با رحمتے نہ جانے کس مزے میں ہیں پر ان کا پرتو فگن بہت ہیں اورپرچھاواں بھی گہر ا ہے ،ذرا ذرا یا د ہے کہ عمر ان خان نیا زی نے جب گلستان بے مہک سیا ست میں قدم رکھا تھا اس وقت ان کا مدعا ایک ہی تھا کہ پاکستان میں امیر کے لیے الگ سے قانون ہے اور غریب کے لیے الگ ہے ، گو یہ کوئی نئی بات نہیں تھی تاہم کسی سیا سی قیا دت کی جانب سے پہلی مر تبہ یہ تصدیق کھلے الفاظ میں کی گئی تھی کہ عدل عمر انی کے فقدان کی بناء پر عوام خاص طورپر غریب پسے ہوئے معاشرے کی زندگی بسر کررہے ہیں وہ ایک بہت بڑی آرزو اور امید بن کر افق سیا ست میں چمکے تھے ان کی ہر دلعزیزی کی ایک بڑی وجہ عدل عمر انی کا نظریہ بھی تھا یہ الگ سی بات ہے کہ دور پی ٹی آئی میں نہ تو عدل جہا نگیر ی نہ عدل تغلق کی رتی بھر جھلک نظرنہیں آئی بلکہ اکبری انصاف میں چنوائی گئی انار کلی کی روح جو اب بھی انصاف کے لیے دست سوال بنی ہوئی ہے بھٹکتی نظر آئی ، اگر عمر ان خان نیا زی اپنے دور عدل میں وعد ے نبھا جا تے تو ان کو آج قریہ قریہ عدل وانصاف کے لیے چکر نہ لگانا پڑتے ، تاہم ایک بات ہے کہ وہ ہیں بہت خوش قسمت کیو ں کہ ان کو اداروں کی جانب سے سہولت حاصل ہو جا تی ہے اس طر ح ان کی مشکلات میں کمی بھی واقع ہو تی نظر آتی ہے ایسی سہولت موصوف کو بابارحمتے کے دور میں بھی حاصل تھی چلے تھے پانا ما کا پاجاما کسنے جو بن گیا اقاما کا کچھا۔ایسے نہ جا نے کتنے کچھے بنتے رہیں گے ،لیکن جب تک ملک میں عدل عمر انی قائم نہیں ہو تا حالات دیگر گو ں رہیں گے ، پاکستان کے ایک معروف سفارت کا ر شمشا د احمد رہ گزرے ہیں ، اللہ ان کو صحت کاملہ سے نواز ے انھو ں نے مشکل ترین حالا ت میں بھی پا کستان کے لیے عمدہ سفارت کاری کی ہے گزشتہ روز ایک تقریب میں عمر ان خا ن کی موجو دگی میں بڑی کام کی باتیں بتائی ہیں ، سابق سفیر شمشاد احمد کا کہنا تھا کہ اپنی سفارت کا ری کے تما م دور میں ان کو یہ احساس ہو ا کہ ملک کے بیرونی کوئی مسائل نہیں ہیں جتنے بھی مسائل ہیں وہ سب کے سب اندورن ملک ہیں ، شمشاد احمد نے بتایا کہ اپنی چالیس سالہ سفارتی زندگی میں ان کو دو چیزوں کا تجربہ ہو ا اس میں سے ایک یہ کہ جن ممالک کی زبان انگریز ی نہیں تھی ان کے حکام ہمیشہ اپنی زبان میں بات کر تے تھے یہ تو دیکھنے میں آیا کہ نجی گفتگو میں وہ انگریزی میں بات کرلیا کرتے تھے ، لیکن ریا ستی بات چیت میں وہ اپنی زبان میں ہی بات کرتے اور ایک ترجما ن کو معاونت کے لیے ساتھ رکھ لیتے ۔موصوف شمشا د کی اس بات پر ایک تاریخی اور سبق آمو ز واقعہ یا د آیا کہ وائسرے ہندنے جو ہندوستان میں ایک مطلق العنا ن حکمران ہو تا تھا ایک مر تبہ مولا نا ابو الکلا م آزاد سے ملا قات کی اس ملا قات میں وہ اپنے ہمر اہ ایک ترجمان بھی لایا وہ انگریز ی میں بات کر تا تھا اورترجما ن اردو میں ترجمہ کر دیتا تاکہ مولانا کی سمجھ میں آجائے لیکن ایک موقعہ پر ترجمان صحیح طور پر ترجمہ نہ کر سکا تو مولا نا نے دوست کردیا جس پر وائسرے نے مو لا نا سے کہا کہ جب آپ کو انگریز ی آتی ہے تو براہ راست انگریزی میں گفتگو کیوں نہیں کرتے جس پر مولا نا تاریخی جواب دیا کہ تم انگریز لوگ ہزاروںمیل دور سے آکر اپنی زبان بولتے ہو تو میں اپنے گھر میں بیٹھ کر اپنی زبان کیو ں چھو ڑ دو ں ، اسی طرح مولا نا ابو الکلا م کا ایک اور واقعہ بھی یا د آرہا ہے کہ وہ کا نگر س کے صدر تھے صلا ح ومشورے کے لیے گاندھی جی ان کے گھر تشریف لے گئے جہا ں مولانا کے سیکرٹری نے گاندھی جی کو بتایا کہ یہ مولا نا کے تصنیف و تالیف و مطالعہ کا وقت ہے وہ اس لمحہ کسی سے ملا قات نہیں کیا کرتے آپ وقت لے کر آئیں ہندوستان کے اتنے بڑے لیڈر کو یہ جواب ناگوار تو گزرا مگر انھو ں نے اصرا ر کیا کہ ان کی آمد کی اطلا ع کر دی جائے وہ ملا قات کرلیں گے پہلے تو مولا نا کے سیکرٹری انکا ر ہی کرتے رہے تاہم پھر وہ مولانا کو مطلع کر نے کمرے میں چلے گئے واپس آکر بتایا کہ مولا نا کا کہنا ہے کہ وہ مصروف ہیں بہر حال گاندھی کا فی دیر تک انتظار کے بعد واپس لو ٹ گئے ، یہ اصول ضوابط ہو تے ہیں ، شمشا د احمد اپنی چالیس سالہ ملا زمت کا نچوڑ یہ بتاتے ہیں کہ آئین میں سب کچھ مصفا درج ہے ، قوانین بھی موجو د ہیں بگاڑ جب پید ا ہو تا ہے کہ دونو ں کو نظر انداز کر کے ترجیحات بدل دی جا تی ہیں اور یہی ملک کا اصل مسلئہ ہے انھو ں نے یہ بھی انکشاف کیا کہ امریکا کسی ملک کے خلاف سازش نہیںکیا کرتا ، ساز ش بھی گھر کے اندر سے ہو تی ہے ۔انھو ں نے امریکی اسسٹنٹ وزیر خارجہ کے سائفر سے متعلق بھی یہ ہی کہا کہ وہ ساز ش نہیں تھی بلکہ موقف تھا جو کچھ ہوا وہ ملک کے اندر ہی ہو ا ۔

مزید پڑھیں:  تجربہ کرکے دیکھیں تو!