پاکستان ،سعودی عرب اقتصادی تعلقات کا فروغ

ممالک کے درمیان دو طرفہ تعلقات اسی صورت میں مضبوط تصور ہوتے ہیں جب کثیرالجہتی شعبوں میں تعاون بھی قائم ہو۔ دیکھا جائے تو پاکستان اور سعودی عرب مختلف بین الاقوامی معاملات پر یکساں نقطہ نظر رکھتے ہیں اور عالمی فورموں پر ایکدوسرے سے قریبی تعاون کرتے ہیں۔ اسی طرح دفاعی اور سکیورٹی تعاون بھی دونوں ملکوں کے مثالی تعلقات کا ایک شاندار باب رہا ہے۔ تاہم تجارتی اور سرمایہ کاری کے شعبوں میں روابط تاحال اس حوالے سے دستیاب مواقع سے ہم آہنگ نہیں ہے۔ پاکستان اپنی ضرورت کا زیادہ تر تیل سعودی عرب سے درآمد کرتا ہے لیکن سعودی عرب کو اس کی برآمدات کی شرح ان کی حقیقی صلاحیت سے بہت کم ہیں۔ یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ پاکستان سعودی سرمایہ کاروں کیلئے پرکشش مواقع بھی فراہم کرتا ہے۔ اس مقصد کیلئے دو طرفہ بزنس کونسل بھی قائم کی گئی۔ دونوں برادر ممالک میں طویل عرصے سے وزارتی سطح پر مشترکہ اقتصادی کمیشن بھی قائم ہے لیکن سرکاری شعبوں میں تعاون اکثر سست روی کا شکار رہا ہے کیونکہ اس حوالے سے مختلف بیورو کریٹک پیچیدگیوں کا سامنا ہوتا ہے۔
بزنس کونسل کے 15 رکنی اعلیٰ سطح کے وفد نے حال ہی میں پاکستان کا ایک ہفتہ پر محیط دورہ کیا۔ وفد کی قیادت بزنس کونسل کے چیئرمین فہد بن محمد الباشا کر رہے تھے اور اس کے اراکین میں 30 ممتاز کاروباری کمپنیوں کے نمائندے شامل تھے۔ وفد نے اسلام آباد، لاہور، سیالکوٹ، فیصل آباد اور کراچی کا دورہ کیا۔ وفد کے سربراہ کا کہنا ہے کہ اس دورے کا نتیجہ غیر متوقع طور پر اچھا رہا ہے۔ پوری ٹیم نے مختلف شعبوں میں شاندار مواقع کا مشاہدہ کیا ۔ امید ہے کہ سعودی عرب کے کاروباری اداروں اور پاکستانی کمپنیوں کی جانب سے تعاون کیا جائے گا۔ وفد نے جن دلچسپی کے شعبوں کی نشاندہی کی، ان میں آئی ٹی، زراعت، جراحی کا سامان، کھیلوں سے متعلقہ لباس، ٹیکسٹائل اور تعمیرات کے شعبے شامل ہیں۔ پاکستان میں آئی ٹی کا شعبہ پھل پھول رہا ہے جس کا اب برآمدات میں نمایاں حصہ ہے۔ نئے ڈیموں اور بیراجوں کی تعمیر سے ان زمینوں کو قابل کاشت بنایا جا سکتا ہے جس سے نہ صرف ملکی ضروریات کیلئے بلکہ خلیج تعاون کونسل کے رکن ممالک کو بھی برآمد کرنے کیلئے بھی غذائی اشیاء اگائی جا سکتی ہیں۔
بین الاقوامی تجارت تقابلی فائدہ کے اصول پر مبنی ہوتی ہے، پاکستان معیاری ٹیکسٹائل کی پیداوار میں برتری رکھتا ہے، یہاں تجربہ کار ٹیکسٹائل انجینئرز اور ورکرز موجود ہیں۔ چونکہ اچھے معیار کا چمڑا مقامی طور پر دستیاب ہے، اس لئے پاکستان بڑی مقدار میں چمڑے کی جیکٹس اور فٹ بالز برآمد کرتا ہے، ٹیکسٹائل میں کھیلوں سے متعلق ملبوسات ہیں جن کی بزنس کونسل وفد نے تعاون کے ممکنہ شعبے کے طور پر نشاندہی کی۔ پاکستان میں تعمیراتی سامان کی بھی کوئی کمی نہیں۔ لیکن تعمیر کی بہت سی اشیاء اب مہنگی ہو چکی ہیں اور عام آدمی کیلئے ناقابل برداشت ہیں۔چونکہ سعودی کمپنیوں کو سستے گھروں کی تعمیر اور پہلے سے تیار شدہ مکانات کا وسیع تجربہ ہے۔ 230 ملین آبادی کے حامل پاکستان میں مکانات کی طلب بڑھ رہی ہے، اس لیے تعمیرات سعودی کمپنیوں کی سرمایہ کاری کیلئے مثالی شعبہ ثابت ہو سکتا ہے۔ فٹ بال سعودی عرب کا سب سے مقبول کھیل ہے اور پاکستان کو مسلسل تین ورلڈ کپ ٹورنامنٹس میں فٹ بال برآمد کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔ ہاکی اور کرکٹ پاکستان کے قومی کھیلوں کی طرح ہیں۔ کھیلوں کے سامان میں اب مصنوعات کی تربیتی کٹس، حفاظتی سامان، چمڑے کے دستانے، خصوصی جوتے اور ہیلمٹ شامل ہیں اور پاکستان کے پاس ان اشیا کی تیاری کیلئے خام مال اور تربیت یافتہ افرادی قوت موجود ہے۔
پاکستان میں نجی شعبے کے دائرہ کار سے باہر، آئل ریفائنریز اور پیٹرو کیمیکل انڈسٹری میں بھی سرمایہ کاری کے وسیع امکانات موجود ہیں۔ یہاں ایک بڑی مقامی مارکیٹ ہے اور آنے والے برسوں میں پاکستان توانائی کے وسائل کی بڑی مقدار چین تک پہنچانے کا ذریعہ بن جائے گا۔ چینی صوبہ سنکیانگ تیز رفتاری سے ترقی کر رہا ہے اور اس کے توانائی کے وسائل کی ضروریات میں اضافہ ہونا لازمی ہے۔ شمال جنوب رابطے کی فراہمی سے پاکستان افریقہ، مشرق وسطیٰ اور چین کے درمیان تجارت کیلئے ایک اہم ٹرانزٹ روٹ بن جائے گا۔گزشتہ سال پاکستان نے سعودی سے تین اعشاریہ 45 بلین ڈالر کا تیل درآمد کیا تھا جبکہ سعودی عرب کو اس کی برآمدات 437 ملین ڈالر تھیں۔ یوں زیادہ تجارتی توازن سعودی عرب کے حق میں ہے۔ امید ہے کہ اس بزنس کونسل کے وفد کا حالیہ دورہ اس تجارتی عدم توازن کو دور کرنے میں معاون ثابت ہوگا۔ پاکستان اور سعودی عرب کا چونکہ علاقائی امن اور میری ٹائم سیکیورٹی میں بھی مشترکہ مفاد ہے، امن اور سلامتی معاشی ترقی اور خوشحالی کے بنیادی عوام ہیں۔ چنانچہ یہ مشترکہ اہداف معاشی تعلقات کو فروغ دینے کیلئے سازگار مواقع فراہم کرتے ہیں۔
(بشکریہ ، عرب نیوز، ترجمہ: راشد عباسی)

مزید پڑھیں:  شاہ خرچیوں سے پرہیز ضروری ہے!