فطرت کے خلاف نہ جائیں

پاکستان نے 30لاکھ ٹن گندم درآمد کرنے کا فیصلہ کیا ہے، اس ضمن میں وزیر اعظم شہباز شریف کی ہدایت کے مطابق انٹرنیشنل کمپنیوں کی خدمات حاصل کی گئی ہیں، دس انٹرنیشنل کمپنیوں نے ٹینڈرز میں حصہ لیا، ٹریڈنگ کارپوریشن آف پاکستان شفافیت کو یقنی بنانے کیلئے آئندہ ہفتے ان ٹینڈرز اور ان کی شرائط کا تقابلی جائزہ لے کر اپنی سفارشات کابینہ کی اقتصادی کمیٹی کے سامنے پیش کرے گی۔ وزرات خزانہ کے حکام نے کہا ہے کہ جس کمپنی کے ریٹس سب سے کم اور شرائط آسان ہوں گی اس سے گندم درآمد کرنے کا حتمی فیصلہ کیا جائے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے، اور گندم کی پیداوار کے لحاظ سے ہماری زمینیں موزوں ترین ہیں لیکن اس کے باوجود ہمیں گندم درآمد کرنی پڑ رہی ہے تو اس کا واضح مطلب یہ ہوا کہ زراعت کے ضمن میں منصوبہ بندی میں کہیں نہ کہیں کوتاہی ہو رہی ہے۔
جغرافیہ کے ماہرین پاکستان کے بارے کہتے ہیں کہ کسی ملک کی ترقی کیلئے جن وسائل کو لازمی قرار دیا جا سکتا ہے وہ سارے پاکستان میں پائے جاتے ہیں، کھیت کھلیان، پہاڑ، ریگستان، صحرا، ندی نالے، سمندر اور جنگلات قدرت نے ہمیں ان سبھی نعمتوں سے نواز رکھا ہے، بس کمی ہے تو منصوبہ بندی کی ہے۔ قدرت نے جس طرح ہر خطے کے لوگوں کی زبان، رنگ و نسل اور مزاجوں کو مختلف بنایا ہے اسی طرح ہر علاقے میں قدرت کے مظاہر اور قدرتی پیداوار الگ ہیں، یہاں تک کہ جانوروں کی نسلیں بھی جدا جدا ہیں۔ پہاڑی علاقے جہاں پر سال بھر سخت سردی اور برف باری ہوتی ہے وہاں پر پرندوں کو قدرت نے ایسے پنکھ ودیعت کئے ہیں جو انہیں سردی سے بچاتے ہیں، جانوروں کو ایسے بال عطا کئے ہیں جو انہیں برف باری کی ہلاکت خیزی سے محفوظ رکھتے ہیں۔ جہاں انسان کیلئے زندہ رہنا مشکل ہو جاتا ہے وہاں برفانی ریچھ اور اس جیسے جانور زندگی گزار رہے ہوتے ہیں۔ یہ قدرت کی طرف سے بندوبست ہے اگر یہ جانور گرم موسم والے علاقوں میں آ جائیں تو ان کیلئے زندہ رہنا مشکل ہو جاتا ہے جو لوگ سرد علاقوں میں پائے جانے والے جانور شوقیہ پالتے ہیں وہ ان کیلئے ایئر کنڈیشنر کا بندوبست کرتے ہیں۔ بالکل ایسے ہی قدرت نے ہر خطے کی زمینی پیداوار کو بھی تقسیم کر دیا ہے، ہر علاقے میں پیدا ہونے والی اجناس کا ذائقہ الگ ہے۔ انسانوں نے قدرت کی تقسیم کو نظر انداز کر کے اپنی عقل کے گھوڑے دوڑانے شروع کر دیئے ہیں، جو علاقے گندم کی پیداوار کیلئے موزوں تھے ان علاقوں میں دیگر فصلیں اگائی جا رہی ہیں، یہ جانتے ہوئے بھی کہ پاکستانی گندم دنیا کی معیاری گندم میں شمار ہوتی ہے ہمارا محکمہ زراعت چادر تان کر سویا رہتا ہے۔
وسطی پنجاب کے علاقے کپاس کیلئے موزوں ہیں، جب ان علاقوں میںکپاس کی فصل تیار ہوتی تو دلکش نظارہ دیکھنے کو ملتا، کپاس کو سفید سونا بھی کہا جاتا ہے کیونکہ کپاس کی چنائی سے کاشتکار سے لیکر ہر شخص خوشحال ہو جاتا تھا، ہماری ٹیکسٹائل ملز کپاس کی فصل کی مرہون منت تھیں مگر پھر ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کپاس کی جگہ پر گنا کاشت کرنے کی ترغیب دی جانے لگی یہ ترغیب شوگر ملز کی طرف سے تھی، انہیں ملز چلانے کیلئے وافر مقدار میں گنا چاہئے تھا، اس مقصد کیلئے کپاس کی فصل کو وائرس کے ذریعے تباہ کیا گیا۔ جو کاشت کار کپاس کی فصل سے منسلک تھے وہ مقروض ہونے لگے شوگرملز مالکان نے اس کا فائدہ اٹھایا اور کاشت کاروں کو قرض فراہم کیا مگر یہ شرط عائد کی کہ آپ گنا کاشت کریں گے، ہزاروں کاشت کاروں کے پاس کوئی آپشن نہیں تھا اس لئے انہوں نے ”مرتے کیا نہ کرتے” کے مصداق گنا کی فصل شروع کر دی، یوں چند کارخانہ داروں کی ملی بھگت سے لاکھوں کاشت کار تباہ ہوئے، ان سے جڑے لاکھوں مزدوروں سے روزگار چھن گیا، کپاس کی چنائی کرنے والی لاکھوں خواتین خوشحال سے بدحال ہو گئیں، جبکہ دوسرے مرحلے میں ہماری ٹیکسٹائل انڈسٹری متاثر ہوئی کیونکہ ٹیکسٹائل ملز کو کپاس کی مطلوبہ مقدار ملنا بند ہو گئی تھی۔ اب صورتحال یہ ہے کہ ہماری ٹیکسٹائل ملز بھارت اور دیگر ممالک سے کپاس درآمد کرنے پر مجبور ہیں جس پر کثیر زرمبادلہ خرچ آتا ہے اور ٹیکسٹائل مصنوعات کی لاگت بڑھ جاتی ہے، اگر ٹیکسٹائل ملزکو درکار کپاس مقامی سطح پر ملک سے پوری ہو تو کاشت کار، کارخانہ دار اور لاکھوں مزدور خوشحال ہو جائیں گے، یہ ترقی کا ایسا راز ہے جو قدرت نے ہمیں دیا ہے اور وسائل کی یہ تقسیم احساس محرومی سے بچاتی ہے اس کے برعکس بندوں کی منصوبہ بندی ہے جو اپنے مفادات کو سامنے رکھے کر ترتیب دی جاتی ہے اس سے وسائل اور دولت کی تقسیم کا توازن بگڑ جاتا ہے، کئی علاقے مالدار جبکہ ایک ہی ملک کے دوسرے علاقے محروم رہ جاتے ہیں، پاکستان کی 75سالہ تاریخ میں جو فیصلے کئے گئے ہیں وہ دولت کی غیر منصفانہ تقسیم کو تقویت دیتے ہیں، ایوب خان کے دور میں جب ملک کے اندر انڈسٹری لگ رہی تھی تو زرعی وسائل کو مدنظر رکھ کر کوئی پروگرام پیش نہیں کیا گیا، اسی کا نتیجہ ہے کہ بلوچستان ترقی کی راہ میں پیچھے رہ گیا کیونکہ دیگر صوبوں کی نسبت وہاں پر کارخانے قائم نہیں کئے گئے جس سے وہاں کے لوگوں کو روزگار نہیں مل سکا۔ کہا جاتا ہے کچھ غلطیوں کا ازالہ آسان نہیں ہوتا، تاہم اگر دولت کی مساویانہ تقسیم کا فارمولہ پیش نہ کیا گیا تو زرعی ملک ہونے کے باوجود ہمیں گندم بحران جیسے مسائل کیلئے تیار رہنا ہو گا۔

مزید پڑھیں:  اک نظر ادھربھی