آزادکشمیر اسمبلی سے تیسرا وزیر اعظم برآمد ہوگا؟

حکومتی تبدیلی کا جو پروجیکٹ اسلام آباد میں کھولا گیا تھا چاوروں صوبوں کے ساتھ ساتھ اس کی تکمیل گلگت بلتستان او ر آزادکشمیر کے بغیر ممکن تھی مگر عمرا ن خان نے جو دبائو بڑھایا اس کا نتیجہ ہے گلگت اور آزادکشمیر کی طرف بڑھے ہوئے ہاتھ اچانک رک سے گئے ہیں ۔یہ ہاتھ کلی طور پر پیچھے نہیں ہوئے وقتی طور رک گئے ہیں۔ایسے میںآزادکشمیر میں پی ٹی آئی کی حکومت خاصی مشکل صورت حال سے گزر کر ایک کھرب تریسٹھ ارب ستر کروڑ روپے پر محیط مالی سال 2022,23کے لئے اپنا پہلابجٹ منظور کرانے میں کامیاب تو ہوگئی مگر یوں لگتا ہے اس حکومت کے لئے ابھی عشق کے کئی اور امتحان باقی ہیں۔ یہ آزادکشمیر میں پی ٹی آئی حکومت کا پہلا بجٹ ہے مگر اس حکومت کی بدقسمتی یہ ہے کہ ایک سال میں اسلام آباد کا منظر بدل گیا ہے اور وفاقی یوں منظر اور موسم اس حکومت کے لئے موافق نہیں رہا ۔ اس تبدیلی کے اثرات بجٹ کی تیاری کے دوران ہونے والی کھینچا تانی کی صورت میں نظر آتے رہے۔ایک مرحلے پر تو یہ بھی کہا جانے لگا کہ آزادکشمیر حکومت نے مجموعی رقم پر کٹوتی کے خلاف احتجاج کے طور پر بجٹ پیش کرنے سے ہی انکار کر دیا ہے بعد میں یہ مسئلہ کچھ سلجھ گیا اور نوبت یہاں تک نہ آسکی ۔اس ایک سال میں پی ٹی آئی حکومت دووزرائے اعظم کے تجربے سے گزر چکی ہے ۔پہلے وزیر اعظم سردارعبدالقیوم نیازی منظر سے ہٹائے جا چکے ہیں اور ان کی جگہ سردار تنویر الیاس خان لے چکے ہیں۔ اور اب نہ صرف اپوزیشن بلکہ خود حکومتی صفوں میں بااثر شخصیات کی کوشش ہے کہ اس اسمبلی سے تیسرا وزیر اعظم بھی برآمد ہو اور ضروری نہیں کہ دو وزرائے کی طرح اس کا تعلق بھی پی ٹی آئی سے ہو کیونکہ اپوزیشن کے کئی طاقتور کردار وزرات عظمیٰ کے لیے لنگر لنگوٹ کس کر میدان میں اُتر چکے ہیں ۔ماضی میں2006کی اسمبلی پانچ سال میں چار وزرائے اعظم سردار عتیق احمد خان ،سردار یعقوب خان ،راجہ فاروق حیدر اور دوبارہ سردار عتیق احمد کی برآمدگی کا کرشمہ بھی دکھاچکی ہے ۔خود صدر آزادکشمیر بیرسٹر سلطان محمود چوہدری اور وزیر اعظم تنویر الیاس خان کے درمیان بھی سب اچھا نہیں ۔مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی پر مشتمل اپوزیشن نے بجٹ پیش کرنے کے موقع پر یہ کہہ احتجاج کیا کہ حکومت نے سپریم کورٹ کے فیصلے کو نظر انداز کرتے ہوئے اپوزیشن ارکان کے لئے مساوی فنڈز مختص نہیں کئے ۔ اس حوالے سے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مذاکرات بھی بے نتیجہ رہے اور اپوزیشن نے اپنا احتجاج ختم نہیں کیا۔ اپوزیشن ارکان نے بجٹ کے دوران حکومت پر تابڑ توڑ حملے کئے اور خاصے عرصے کے بعد آزادکشمیر اسمبلی کی اپوزیشن فرینڈلی کا رویہ ترک کرتی ہوئی نظر آرہی ہے۔بجٹ کسی بھی حکومت کی آمدن اور خرچ کا تخمینہ ہوتا ہے ۔حکومت بھی ایک گھر کی طرح اپنے وسائل کو سامنے رکھ کر سال بھر کا بجٹ تیار کرتی ہے ۔یمہنگائی ،تنخواہوں وغیرہ کے معاملات کے لئے لوگ وفاقی بجٹ کی طرف متجسسانہ نگاہوں سے دیکھتے ہیںجبکہ آزادکشمیر کے بجٹ کے ساتھ تو عام آدمی کا کوئی لینا دینا ہی نہیں ہوتا۔اس کی وجہ یہ ہے کہ بجٹ عام آدمی کی زندگی پر مثبت یا منفی انداز میں اثرا نداز ہی نہیں ہوتا ۔یہ بجٹ محکمہ مالیات کی بیوروکریسی تیار کرتی ہے اور وزیر خزانہ اسمبلی میں ایک طویل کتاب پڑھ کر بجٹ خطاب فرماتے ہیں۔خطاب کا پہلا حصہ تحریک آزادی کشمیر کو اجاگر کرنے کے دعوئوں سے مزین ہوتا ہے دوسرے حصے میں ترقیاتی اور غیر ترقیاتی اخراجات کی تفصیل اور وسائل کی مختلف محکموں میں تقسیم کا حساب کتاب ہوتا ہے۔آزادکشمیر کو قدرت نے بے پناہ وسائل عطا کررکھے ہیں ۔یہاں کا بجٹ کارآمد صرف اسی صورت میں کہلا سکتا ہے جب آزادکشمیر میں پن بجلی کے منصوبوں بالخصوص منگلا ڈیم اور نیلم جہلم جیسے منصوبوں کی رائیلٹی اس بجٹ کا حصہ ہو۔آزادکشمیر سے لوٹی جانی والی معدنیات اس بجٹ کا حصہ ہو۔ٹیکسوں کا دائرہ وسیع ہو ۔آزادکشمیر میں کوئی صنعت نہیں ،کاروبار نہیں ،یہاں سب سے بڑی صنعت سرکاری ملازمت ہے ۔سرکاری ملازمین کی فوج ظفر موج قومی خزانے پر بوجھ ہی ہوتی ہے ۔نئے تعلیمی ادارے قائم کئے جاتے ہیں تو اس کا مقصد تعلیم کوعام کرنا نہیں بلکہ بھانجوں بھتیجوں اور اس کے تلچھٹ پر پارٹی ورکروں کو نوکریاں دینا ہوتا ہے ۔ اس بار بھی حکومت نے پانچ سال میرٹ کی مالا جپنے کے بعد جاتے جاتے ایڈہاک ملازمین کو مستقل کردیاجس سے نوجوانوں کی مایوسی بڑھ گئی ۔ماضی کی حکومتوں نے میڈیکل کالجوں اور یونیورسٹیوں کے قیام سے یہی مقاصد حاصل کئے یہ غیر پیداواری شعبہ ہے ۔جس میں بھرتی ہونے والے معمولی سا ٹیکس دے کر تاحیات بھاری معاوضے وصول کرتے ہیں ۔ہر حکومت اس ٹائٹینک میں اضافہ ہی کرتی ہے ۔وزیر اعظم ،صدر ،وزراء اور بیوروکریٹ اپنے بھانجوں بھتیجوں کو دھڑا دھڑ خلاف میرٹ بھرتی کرتے ہیں ۔ہونا تو یہ چاہئے کہ حکومتیں آزادکشمیر کے وسائل میں اضافے کی تدابیر اختیار کریں۔اس ریاست کو پیراسائیٹ اور بوجھ بنانے کی بجائے ہائیڈرل کے شعبے میں خودکفالت کی راہ اپنائیں،معدنیات ،سیاحت اور دوسرے شعبوں میں انقلابی اقدامات اُٹھائے جائیں۔سیاحت کے شعبے میں پوٹینشل ہونے کے باوجود کوئی حکومت تاحال اس سے فائدہ نہیں اُٹھا سکی۔ایک طرف بنجوسہ ،تولی پیر ،نیلم لیپا جیسے سیاحتی مراکز کی طرف ہر سال ملک بھر سے سیاحوں کی آمد بڑھتی جا رہی ہے تو دوسری طرف حکومت کے ہاتھ پائوں پھولتے جا رہے ہیں ۔حکومت سیاحوں کے لئے ڈھنگ کے گیسٹ ہاوس اور ہوٹل تعمیر نہیں کر سکتی ۔ اس شعبے میں پرائیویٹ سیکٹر ہی آگے آرہا ہے مگر پرائیوٹ سیکٹر کو سیاحوں کو سہولتیں دینے سے زیادہ ان کی جیبوں میں دلچسپی ہوتی ہے۔ جب تک آزادکشمیر کی حکومتیں بیوروکریسی کے بجٹ سے دامن چھڑا کر اپنے وسائل میں اضافہ کرتے ہوئے بجٹ تیارنہیں کرتیں اور اس کام میں بیرون ملک بسنے والے کشمیریوں کو مالی اور ذہنی طور شریک نہیں کرتی اس وقت تک یہ بجٹ محض رسم وروایت ہی رہے گا ۔آزادکشمیر کا وزیر خزانہ بجٹ تقریر پڑھنے کے جرم کا سزاوار ہی رہے گا ۔

مزید پڑھیں:  جائیں تو جائیں کہاں ؟