مشرقیات

جرگہ ہی کرانا ہے تو چلیںایسا ہی سہی ،اب اگلے مرحلے کے طور پر کپتان کو بلا بھیجیں اور ساتھ میںنکے میاں کو بھی ،دونوں کی ملاقات کا اہتمام بھی کیا جا سکتاہے رجسٹرار کی نگرانی میں اوریوں ہاتھ نہ ملانے کی قسم بھی ٹوٹ جائے گی جس کا بہرحال کفارہ ہے۔اس کے باقی معاملات پر دونوں کو حتمی مذاکرات کی ڈیڈ لائن دے کر تمام متنازعہ معلاملات طے کرنے کاکہہ دیا جائے ،یوں بات چیت شروع ہو جائے گی اس کے لیے عدالت عظمیٰ کے پاس ویسے بھی ایک درخواست پڑی ہوئی ہے ،کپتان کی جانب سے دائر اس درخواست میں انہوں نے حکومت کے خلاف احتجاج کے اپنے حق بارے عدالت سے استفسار کیا ہے اس درخواست پر سماعت کے بہانے حکومت اور کپتان دونوں کو بلا کر آپس میں مل بیٹھ کر بات چیت کے ذریعے مسائل کا حل نکالنے کا کہہ دیا جائے۔مان لیا اس طرح عدالت کو ایک بار پھر سیاسی معاملات میں آئینی فیصلے دینے کی بجائے پنچائیت اور جرگے کے طعنے سننے کو مل سکتے ہیں تاہم سوائے اس کے کوئی حل بھی نہیں ہے ،کپتان اسمبلی سے مستعفی ہوچکے ہیں اور نئے انتخابات چاہتے ہیں ادھر حکومت کو ابھی تیاری کرنی ہے اور اس تیاری میں سال بھر کا عرصہ تو لازمی لگ جائے گا جبکہ معیشت جس نازک مقام پر کھڑی ہے اس کے ہوتے ہوئے بھی سیاسی عدم استحکام ملک وقوم کے مفاد میں نہیں ہے جو نیوٹرل ہو چکے وہ شاید ہی اب دوبارہ اتنا بڑا رسک لیں بار بار کے تجربات کے بعد انہیں جو سننی پڑ رہی ہیں اس کے ہوتے ہوئے شاید ابھی وہ کچھ عرصہ نیوٹرل ہی رہیں تو بہتر یہی ہے کہ سیاسی جماعتیں اپنے فیصلے اپنے ہاتھ میں لے کر مستقبل کے لیے میثاق جمہوریت کی ایک اور راہداری کھول لیں اس کے لیے عدالت عظمی راہ ہموار کردے جس کے بعد تمام سیاسی جماعتوں پر مشتمل تجربہ کا ر پارلیمنٹرین کی ایک کمیٹی اختلافی معاملات کا حل نکالے ،ایک حتمی ڈرافٹ تیار کرنے کے بعد ان جماعتوں کی اعلیٰ قیادت کے درمیان کل جماعتی کانفرنس ہو اور اس ڈرافٹ کی منظوری دیتے ہوئے مستقبل کی سیاست کا خاکہ قوم کے سامنے رکھ دیا جائے،ضد اور انا کو عید قرباں سے پہلے قربان کر دیجیئے ،ملک وقوم دونوں بھنور سے نکل جائیں گے ،سیاسی قیادت کو ایک موقع ہاتھ آیا ہے کہ وہ سول بالادستی کے لیے ایک ہو کر اپنے ہاں کی جمہوریت کو دنیا کے لیے قابل قبول بنا کر پیش کریں،بصورت دیگر جس طرح کے معاشی حالات ہیں ہمارے ان کے ہوتے ہوئے سیاسی عدم استحکام کا تڑکا حالات کو بد سے بدتر کی جانب ہی لے جائے گا،ایک دوسرے کو عدالتوں اور مقتدرحلقوں کے ذریعے سیاست سے آئوٹ کر نے کے ہتھکنڈے آزما کر آپ جتنی بھی کامیابیاں سمیٹیں بہرحال ملک وقوم کو ان کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا اس لیے ذات سے اوپر اٹھ کر سوچ اپنانے کی ضرورت ہے۔

مزید پڑھیں:  اک نظر ادھربھی