امام مسجدنبوی نے خلیفہ کی پیشکش کیوں ٹھکرا دی؟

خلیفہ عبدالمالک بن مروان نے مشہور تابعی بزرگ اور مسجد نبوی کے امام سعید بن مُسیّب رحمہ اللہ کے پاس اپنا ایلچی بھیجا …
اس نے آ کر عرض کی کہ خلیفہ کی خواہش ہے کہ آپ اپنی بیٹی کی شادی ولی عہد ولید بن عبدالمالک رحمہ اللہ سے کر دیں …
آپ کی صاحبزادی بہت خوبصورت اور سیرت و کردار میں یکتا تھی…
عالمہ اور فاضلہ تھی … تو امام سعید بن مُسیّب رحمہ اللہ نے بلا تامل انکار کر دیا…

امام سعید بن مُسیّب رحمہ اللہ مسجد نبوی میں اپنے شاگردوں کو روزانہ عصر کی نماز کے بعد درس دیتے تھے، شاگردوں میں عبداللہ نامی ایک زاہد اور تقویٰ شعار نوجوان بھی شامل تھا… اتفاق سے وہ گزشتہ چند روز سے سبق میں حاضر نہ ہوا تھا… ایک روز درس شروع ہوا تو آپ کی نظر اپنے شاگرد پر جا پڑی…
پوچھا : … تم گزشہ کئی روز سے درس میں نظر نہیں آئے … کہاں غائب تھے؟ …
عبداللہ نے عرض کی: … حضرت ! میری اہلیہ کا انتقال ہو گیا اور میں گھر میں مصروف رہا… آپ نے فرمایا: …
ہمیں اطلاع کیوں نہ دی … تاکہ ہم بھی تعزیت کے لیے آ جاتے؟ …
عبداللہ نے جواب دیا: … اُستادِ محترم! میں نے آپ کو اطلاع دینے سے اس لیے گریز کی تاکہ طلباء علوم نبوت کی یہ جماعت آپ کی تعلیم سے مستفید ہوتی رہے…
آپ کا وقت نہایت قیمتی ہے ، آپ کے دروس میرے غم میں شریک ہونے سے کہیں زیادہ اہم ہیں…
سعید بن مُسیّب نے پوچھا: … بیوی کی وفات کے بعد کسی عورت کو پیغام نکاح بھی دیا ہے؟

عبداللہ نے عرض کی: … اللہ آپ پر رحم کرے… بھلا کون اب مجھ سے نکاح کرے گا کیونکہ میرے پاس چند درہم سے زیادہ کی رقم نہیں۔ آپ نے فرمایا کہ اگر میں اپنی صاحبزادی تمہارے نکاح میں دے دوں تو تمہیں قبول ہے؟ عبداللہ نے مارے حیرت اور تعجب کے نظریں جھکا دیں… یہ میں کیا سن رہا ہوں ؟ امام سعید بن مُسیّب کی دامادی کا شرف؟ اسے اعتبار نہ آیا … استاد نے دوبارہ پوچھا تو شاگرد رشید نے اثبات میں سر ہلا دیا۔

عبداللہ بن ابی ودَاعہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ کی قسم! مجھے اپنے اُستاد کی باتوں پر یقین نہ آیا… مگر اچانک انہوں نے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کیا … وہ مسجد نبوی تھی … انہوں نے میرا ہاتھ اپنے ہاتھ پر رکھا اور نکاح پڑھانا شروع کر دیا… پھر سعید بن مُسیّب رحمہ اللہ اپنی صاحبزادی کو خود ہی لے کر اپنے داماد کے گھر پہنچ گئے… ادھر عبداللہ اپنے گھر کے اندر شادی کے انتظام کے بارے میں فکر مند بیٹھے تھے کہ دروازہ پر دستک کی آواز ان کے کانوں سے ٹکرائی… عبداللہ نے پوچھا: … کون؟ آواز آئی : … سعید۔ عبداللہ کا بیان ہے : میں دروازہ کھولنے کے لیے کھڑا ہوا اور مجھے یہ خدشہ لاحق ہو گیا کہ شاید اُستادِ محترم کے دل میں اس شادی کے متعلق کوئی بات آ گئی ہے اور اس رشتہ کو نبھانے کا خیال نہیں ہے… یا خود ان کی لڑکی نے ہی میرے ساتھ شادی کے رشتہ میں منسلک ہونے سے انکار کر دیا ہے… لیکن جب دروازہ کھولا تو استاد محترم دروازہ پر تشریف فرما ہیں اور مجسمہ حسن و جمال … پیکر شرم و حیا… عروسی جوڑے میں ملبوس ان کی صاحبزادی پیچھے کھڑی ہے… عبداللہ بن ابی وَداعہ : … ایسی بھی کیا جلدی تھی اُستاد محترم… جو اتنی تکلیف اُٹھانے کی زحمت فرمائی؟ سعید بن ابی مُسیّب ؒ: اے عبداللہ! اللہ تعالیٰ کو یہ ناپسند ہے کہ کوئی شخص بغیر بیوی کے ایک رات بھی گزارے، کہیں شیطان اس کو اپنے شکنجے میں نہ لے لے…
یہ اپنی بیوی لے جائو … اللہ تعالیٰ تیرے لیے اس میں برکت عطا فرمائے اور اس کے لیے تجھ میں برکت دے اور تم دونوں کو خیر و بھلائی سے نوازے۔ یہ کہہ کر سعید بن مُسیّب رحمہ اللہ دروازے ہی سے واپس چلے گئے اور دلہن اپنے شوہر کے کمرے میں داخل ہو گئی۔

عبداللہ کا بیان ہے کہ میں نے اپنی والدہ کو بتایا کہ عالم جلیل سعید بن مُسیّب رحمہ اللہ نے اپنی صاحبزادی سے میری شادی کر دی ہے اور دلہن کو بھی خود پہنچا گئے ہیں … وہ میرے گھر میں موجود ہے۔ پھر مرد اور عورتیں سب میرے گھر میں تشریف لائے … عورتوں نے دلہن کو سنوارا سجایا … تیار کیا… یہ سارا کام خوشنما اسلامی ماحول میں انجام پایا… جس میں رسم و رواج کا کوئی شائبہ تک نہ تھا… پھر یہ سارے لوگ میرے شکریے کے ساتھ اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔

جب میں حجلہ عروسی میں داخل ہوا تو میرے سامنے ایک حسن و جمال کی پیکر … کتاب اللہ کی حافظہ سنت رسول کی عالمہ اور حق زوجیت کی عارفہ جلوہ افروز تھی…
شادی کے ابتدائی ایام نہایت خوبصورت تھے … وہ بہترین بیوی تھی … ایک ہفتہ کے بعد سعید بن مُسیّب رحمہ اللہ سے ملاقات ہوئی ۔ پوچھنے لگے: ہمارے مہمان کو کیسا پایا؟
میں نے کہا: اتنا ہی اچھا جتنا آدمی تصور کر سکتا ہے … اور پھر ایک دن میں نے اپنی بیوی سے کہا: کئی دن گزر چکے ہیں ، علم کے حلقے میں نہیں جا سکا، آج سے میں دوبارہ علم حاصل کرنے جائوں گا… اس نے پوچھا کدھر کا ارادہ ہے ؟

میں نے بتایا: … سعید بن مُسیّب رحمہ اللہ کے درس میں جانا ہے … اس نے عرض کیا : … میرے پاس ہی رہیں …
سعید بن مُسیّب کا علم میرے ہاں سے ہی آپ کو ملتا رہے گا… چنانچہ عبداللہ بن ابی وداعہ بیوی سے درس لینے لگے۔
کچھ دنوں کے بعد …سعید بن مُسیّب جب ملاقات کے لیے تشریف لائے تو پوچھا : … اے عبداللہ ! درس میں آنے کا سلسلہ منقطع کیوں کر دیا؟
عبداللہ بن ابی وداعہ نے جواباً عرض کیا: کیونکہ میں نے سعید بن مُسیّب کا علم اُن کی صاحبزادی کے پاس پا لیا ہے۔