فل کورٹ بنانے کی استدعا مسترد

فل کورٹ بنانے کی استدعا مسترد،سماعت کل صبح تک ملتوی

اسلام آباد: (مشرق نیوز) سپریم کورٹ نے ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ پر فل کورٹ بنانے کی حکومتی استدعا مسترد کردی۔ چیف جسٹس عمرعطاءبندیال پر مشتمل3 رکنی بینچ ہی کیس سماعت کرےگا۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل 3 رکنی بنچ نے کیس کی آج دوبارہ سماعت کی۔

دن بھر دلائل سننے کے بعد سپریم کورٹ نے وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب کے معاملے پر ڈپٹی سپیکر کے رولنگ کیخلاف فل کورٹ بنانے کی درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کیا۔

سپریم کورٹ نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ وکلاء نے فل کورٹ بنانے اور میرٹ پر دلال دیئے، معاملے کی بنیادی قانونی سوال ہے، ارکان کو ہدایت پارٹی سربراہ دے سکتا ہے یا نہیں، وکلاء کی درخواست پر سماعت کل تک ملتوی کرتے ہیں، سماعت کل صبح ساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی کی جاتی ہے۔

فیصلے میں مزید کہا گیا کہ وکلاء کو موقع دیتے ہیں کل عدالت کو مطمئن کریں۔ عدالت کے سامنے سوال آرٹیکل 63 اے کے تحت ہدایات کا ہے، معاملہ کی بنیاد قانونی سوال ہے ارکان اسمبلی کو ہدایت پارٹی سربراہ دے سکتا ہے یا نہیں، وکلاء نے اپنے دلائل کے حق میں عدالتی فیصلوں کا حوالہ بھی دیا۔ پرویز الہی کے وکیل نے کہا رولنگ آئین قانون کے بر خلاف ہے۔ فل کورٹ تشکیل نہ دینے کا تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کیا جائے گا۔

مزید پڑھیں:  روسی نائب وزیر دفاع رشوت لینے کے الزام میں گرفتار

جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ فل کورٹ پر ہم نے سوچا ہے، فل کورٹ پیچیدہ کیسز میں بنائے جاتے ہیں، یہ پیچیدہ کیس نہیں ہے، آرٹیکل 63 اے پر ہمارا فیصلہ آ چکا ہے۔ اپریل سے ایک بحران چلا آ رہا ہے، کیا آپ چاہتے ہیں یہ تنازعہ چلتا رہے، ہم ریاست کے اتنے معاملات کو لمبا کرنے کی اجازت نہیں دینگے۔ دو ماہ پہلے عدالت نے ایک فیصلہ دیا جو سب پر ماننا لازم ہے، ہو سکتا ہے ہمارا فیصلہ غلط ہو لیکن ابھی تک فیصلہ پر نظر ثانی نہیں ہوئی، نظر ثانی درخواستیں زیر التواء ہیں، توقع نہیں تھی اسمبلی بحال ہونے کے بعد نئی اپوزیشن واک آؤٹ کر دے گی، عدالت نے نیک نیتی سے فیصلہ کیا تھا، اپریل 2022ء سے آج بحران بڑھتا ہی جا رہا ہے، آپ شاید چاہتے ہیں یہ بحران مزید طول ہو، فل کورٹ ستمبر میں ہی بن سکے گی، کیا تب تک سب کام روک دیں؟ ریاست کے اہم ترین معاملات کو اس لیے لٹکا نہیں سکتے آپ کی خواہش ہے، آئینی اور عوامی مفاد کے مقدمات کو لٹکانا نہیں چاہیے، ہر شہری کی طرح معیشت کی صورتحال سے ہم بھی پریشان ہیں، کیا معیشت کا یہ حال عدالت کی وجہ سے ہے یا عدم استحکام کی وجہ سے؟ آج زیادہ ووٹ لینے والا باہر اور کم لینے والا وزیراعلی ہے، حمزہ شہباز کو وزیراعلی برقرار رکھنے کیلئے ٹھوس بنیاد درکار ہے، ریاست کے کام چلتے رہنے چاہیے۔

مزید پڑھیں:  چیئرمین پبلک اکاؤ نٹس کمیٹی کے معاملے پر ڈیڈ لاک برقرار