بچوں کیخلاف جرائم بڑھنے لگے

بچوں کیخلاف جرائم بڑھنے لگے

بچوں کی ہراسانی اور جنسی درندگی کے بعد انہیں قتل کرنے کے واقعات ایک انتہائی سنجیدہ مسئلہ بننے لگا ہے جس سے نہ صرف بچوں کی زندگی متاثر ہوتی ہے بلکہ خاندان کے ساتھ ساتھ معاشرے پر بھی اس کے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں کیونکہ جب معاشرے میں ایسے واقعات رونما ہوں گے تو لوگوں میں خوف وہراس پھیلے گا اور وہ بچوں کے حوالے سے عدم تحفظ کا شکار رہیں گے۔

پشاور میں تقریباً 15دنوں کے دوران کینٹ جیسے حساس علاقوں میں یکے بعد دیگرے دوبچیوں کے قتل اور ایک کے ساتھ زیادتی کے تین ایسے واقعات پیش آئے ہیں جنہوں نے پورے معاشرے کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے اور ان واقعات سے اگرچہ خوف وہراس بڑھا ہے لیکن شہریوں میں یہ احساس بھی پیداہونے لگا ہے کہ وہ اپنے بچوں خصوصاً بچیوں کو بلاوجہ گھر سے باہر جانے سے روکیں تاہم بچیوں کے قتل اور زیادتی کے کیسز نے پولیس کے سکیورٹی انتظامات پر بھی کئی سوالات اٹھائے ہیں، صوبائی حکومت کی جانب سے حال ہی میں ابابیل فورس کے قیام کے علاوہ کئی دیگر پولیس فورسز قائم کی گئی ہیں تاکہ شہر میں جرائم کو روکاجا سکے لیکن ان تمام تر اقدامات کے باوجود رہزنی ودیگر جرائم کی وارداتیں رونما ہو رہی ہیں۔

بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات کیلئے مختلف وجوہات پیش کی جا رہی ہیں اور ماہرین کے مطابق لوگوں میں پائے جانی والی مایوسی، پریشانی اورذہنی امراض کے علاوہ لوگوں میں نشہ استعمال کے رحجان کی وجہ سے بھی زیادتی کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔

حال ہی میں بچیوں کے ساتھ پیش آنے والے واقعات میں چار جولائی کو تھانہ شرقی کے علاقے ریلوے کالونی میں 10 یا 11سالہ ماہ نور نامی بچی کو بے دردی سے قتل کرنے کے بعد نعش پھینک دی گئی تھی، مقتولہ بچی پر تشدد بھی کیا گیا، جس کے قتل کے خلاف ورثاء سڑکوں پر نکل آئے تھے اور انہوںنے جی ٹی روڈ پرنعش سڑک پررکھ کر احتجاج کیا ۔ بعد میں پولیس افسران کی یقین دہانیوں کے بعد مظاہرین منتشر ہوگئے تھے تاہم متعدد ہفتے گزرنے کے بعد بھی بچی کو قتل کرنے والے ملزمان کا کوئی سراغ نہیں مل سکا۔ اسی طرح 10جولائی کوعید کے پہلے روزتھانہ گلبرگ کے علاقے میں 5سالہ مسماة(م) کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا جہاں مقامی شاپنگ مال میں بچی سے زیادتی کی گئی، متاثرہ بچی نے گھر آکر والدین کو آگاہ کیا کہ راستے میں نامعلوم افراد نے اسے زیادتی کا نشانہ بنایا ہے۔ بعد میں متاثرہ بچی کو میڈیکل رپورٹ کیلئے بھی منتقل کیا گیا۔ مدعی کی رپورٹ پر پولیس نے نامعلوم افرادکے خلاف مقدمہ درج کیا۔ پولیس نے سی سی ٹی وی فوٹیج سمیت دیگر شواہد پر کام کیا لیکن بچی سے زیادتی کرنے والے ملزمان قانون کی گرفت میں نہیں آسکے۔

مزید پڑھیں:  چیئرمین پبلک اکاؤ نٹس کمیٹی کے معاملے پر ڈیڈ لاک برقرار

اس واقعہ کے چند روز بعد یعنی 17جولائی کو درندگی کا ایک اور اندوہناک واقعہ پیش آیا جب ایک ننھی بچی کو اغواء کرنے کے بعد اسے ظالمانہ طریقے سے قتل کیا گیا۔ صدرکے علاقے کالا باڑی میں7سالہ بچی کو تشدد کے بعد گلہ دبا کر قتل کیا گیا جس کی نعش مسجد کے قریب خالی پلاٹ سے برآمد کی گئی، پولیس کے مطابق ظاہری طور پر بچی کی موت گلہ دبانے سے ہوئی ہے تاہم بچی کی نعش پوسٹمارٹم رپورٹ کیلئے منتقل کی گئی۔ واقعہ سے متعلق مد عی ذکریا ولد میاں نسیم شاہ سکنہ ڈا گ اسما عیل خیل حال کا لا باڑی نے رپور ٹ درج کرائی کہ اس کی بیٹی مسماة حیاء عمر 8 سال اپنے دادا کو کھانا لے جا نے کیلئے گھر سے نکلی اور واپس نہیں آئی، انہوں نے قریبی رشتہ دارو ں اور پڑوسیوں کے گھر وں میں بھی معلومات کی لیکن اس کا کوئی سراغ نہیں مل سکا تھا، بعدازاں انہیں اطلاع ملی کہ کالا باڑی میں بجلی گھر مسجد کے سا منے ایک بچی کی نعش پڑی ہے، وہاں جا کر دیکھا تو اس کی بیٹی حیاء کی نعش پڑی تھی جسے نامعلوم سفاک قاتلو ں نے تشدد کے بعد قتل کردیا تھا۔
واقعہ کی اطلاع ملنے پر ایس ایس پی آپریشنز پشاورکاشف آفتاب عباسی دیگرافسران کے ہمراہ جائے وقوعہ پرپہنچے اورانہوں نے تفتیشی عمل کی نگرانی کی۔ ایس ایس پی نے بتایا کہ 3 یا ساڑھے 3 بجے کے قریب بچی کی گمشدگی کی اطلاع ملی جس کے بعد میں خالی پلاٹ سے نعش ملی،انہوں نے بتایاکہ پولیس نے متعدد مشکوک افراد کو حراست میں لے کر پوچھ گچھ شروع کردی ہے۔ پولیس نے اطراف میں لگے سی سی ٹی وی کیمروں کی فوٹیج حاصل کرنے سمیت جیوفینسنگ کا بھی عمل شروع کیا۔ مقتولہ بچی کے داد ا نے بتایا کہ اس نے بچی کو 10روپے اور ٹافیاں دے کر واپس گھر بھیج دیا تھا، وہ دن کے تقریباً دو بجے کھانا دینے کیلئے دکان پر آئی تھی جسے دادا نے10روپے اور ٹافیاں دے کر گھر واپس بھیج دیا تاہم اس دوران وہ گھرنہیں لوٹی جس پر انہوںنے بچی کی تلاش شروع کی توخالی پلاٹ سے اس کی نعش لکڑی کے تخت پر پڑی ملی جس پر دری ڈالی گئی تھی۔کالاباڑی واقعہ کے اگلے روز پشتہ خرہ کے علاقے نواں کلی میں 9 سالہ بچے کو ملزم محب اللہ ولد نجیب اللہ نامی نوجوان نے زیادتی کا نشانہ بنایا تاہم پولیس نے ملزم کو گرفتار کرلیا تھا جبکہ کراچی کے کم عمر مسافر بچے کو سکندر ٹاؤن میں زیادتی کا نشانہ بنایاگیا۔ بچیوں کے قتل کیسز میں ملوث افراد کو بے نقاب کرنا پولیس کیلئے ایک بڑا چیلنج بن چکا ہے جو اس وقت شدید تنقید کی زد میں ہے تاہم ایسے واقعات کی روک تھام کیلئے شہریوںکو بھی آگے آنا ہوگا اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے مکمل تعاون کرنا ہوگا۔ ادھر پولیس افسران نے مؤقف اپنایا ہے کہ کینٹ کے ایریا میں سینکڑوں گھروں کی پروفائلنگ مکمل کرلی گئی ہے جبکہ ان کیسز کو ٹریس کرنے کیلئے جائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم بھی تشکیل دے دی گئی ہے۔ ایس پی کینٹ محمد اظہر کے مطابق ان واقعات میں نامعلوم ملزمان تک رسائی حاصل کرنے کیلئے ٹیمیں پہلے ہی تشکیل دی جا چکی ہیں اور فرانزک ٹیسٹ کیلئے مشکوک افراد کے نمونے بھی لئے گئے۔ متعدد مشتبہ افراد سے تفتیش کے علاوہ فرانزک ایجنسی سے بھی رابطے میں ہیں اور جلد ملزمان تک رسائی حاصل کرلی جائے گی۔ یہ واقعات صرف پشاور نہیں بلکہ صوبے کے دیگر اضلاع میں بھی پیش آئے ہیں۔ پشاورمیں بچیوں کے قتل کے واقعات سے شہریوں میں خوف وہراس بڑھ گیا ہے تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسے واقعات میں ملوث ملزمان کوپکڑ کر سخت سزائیں دی جائیں تاکہ دوسرے ان سے عبرت حاصل کرسکیں، اگریہ واقعات نہ روکے گئے تواس سے معاشرے میں عدم تحفظ کا احساس اور بے چینی مزید بڑھے گی۔

مزید پڑھیں:  محکمہ موسمیات نے ملک بھر میں مزید بارشوں کی پیشگوئی کر دی