گھر کے ملازم اور پڑوسیوں کے شر سے بچئے

سارا جہاں جانتا ہے کہ ماں کے قدموں تلے جنت ہے اور باپ جنت کا دروازہ ہے۔ اسی طرح یہ بھی سچ ہے کہ بہو کے ہاتھ میں جنت اور جہنم کی چابی ہے ۔ اب یہ بہو کی مرضی پر منحصر ہے کہ وہ کون سی چابی استعمال کرتی ہے۔ معاشرے کا جائزہ لینے پر پتہ چلتا ہے کہ اکثر بہو جہنم کی چابی استعمال کرتی ہے ۔

یہی وجہ ہے کہ اکثر گھروں سے سکون اور اطمینا ن غائب ہو جاتا ہے اور برکت اٹھ جاتی ہے خوش حالی روٹھ جاتی ہے گھر جہنم بن جاتا ہے آپ ہمیشہ الجھن کا شکار رہتی ہیں جس کا اثر پورے خاندان پر پڑتا ہے ۔پڑوس اور محلے میں آپ کے چرچے ہونے لگتے ہیں آپ کو دیکھ کر لوگ ناک سکوڑنے لگتے ہیں۔ بیزارگی کے عالم میں آپ سے ملاقات کے وقت مجبوراً مسکراتے ہیں لیکن ان سب باتوں کا آپ کو علم نہیں ہوتا کیونکہ آپ سمجھتی ہیں کہ گھر کی باتیں گھر کامعاملہ ہے۔

گھر ہی تک محدود ہے لیکن آپ کے نوکر آپ کے پڑوسیوں سے مفت کی چائے پینے کی خاطر آپ کے گھر کی باتیں نمک مرچ لگا کر ان تک پہنچاتے ہیں اور پڑوسی آپ کے معاملہ کو محلے والوں تک پہنچاتے ہیں ۔ معمولی سی بات معمولی سی تلخی، معمولی سی غلط فہمی آپ کی اور آپ کے خاندان کی عزت کی دھجیاں اڑھا دیتی ہے۔ جس کا اثر آپ کے خاندان پر ہی نہیں پڑتا بلکہ آنے والی نسلوں کو بھی اس کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔ ساتھ ہی بچوں کے ہونے والے رشتوں پر بھی اس کا بہت برا اثر پڑتا ہے ۔

آپ اچھے رشتوں کی تلاش میں رہتے ہیں لیکن چاہتے ہوئے آپ ان رشتوں کو حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوتے ہیں۔ اب وہی پڑوسی انکوائری کرنے والوں کے ہمدرد بن کر بتاتے ہیں کہ لڑکے کی والدہ نہایت گرم مزاج ہے اپنی ہی ساس سے تو اس کی کبھی نہیں بنی۔اب بتائیے کون بے وقوف والدین ہوں گے جو ایسی رپورٹ ملنے کے بعد اپنی بیٹی کو آپ کی بہو بنانے کے لیے راضی ہو جائیں گے؟ اسی طرح آپ کے کرتوت کے پھل آپ کی لاڈلی کے راستے میں بھی رکاوٹ پیدا کرتے ہیں ۔آپ کی تلخ مزاجی سلوک اور ساس سے آپ کے رویہ کو آپ کی لاڈلی کے مزاج سے جوڑ کر دیکھا جاتا ہے۔

نتیجہ آپ کی بیٹی خوبصورت ہے، خوب سیرت ہے تعلیم یافتہ ہے ،ہنرمند ہے ،ہر لحاظ سے وہ ایک کامیاب بہو ثابت ہو سکتی ہے اور اچھے خاندان اسے اپنی بہو بنانے کے متمنی ہیں لیکن آپ کے مزاج کے سلسلے میں جو خبریں معاشرے میں پھیلی ہوئی ہیں آپ کی بیٹی کو اچھا گھر ،اچھا شوہر پانے سے جس کی وہ حقدار ہے محروم کر دیتی ہیں ۔آپ کے سسرال پڑوس اور معاشرے میں اپنے آپ کو ہردلعزیز بنانے کے لیے الگ سے کچھ کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ دین اسلام اور پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بتائی ہوئی باتوں پر عمل کرنے کی ضرورت ہے اور اپنے اندر موجود باغی پن کو قابو میں رکھنے کی ضرورت ہے۔

لڑکی کو اپنے میکے سے سسرال جانے سے پہلے اپنے آپ کو تیار کر لینا چاہیے کہ اب آپ اپنے حقیقی میکے جا رہی ہیں ، جہاں آپ کو تاحیات رہنا ہے اور ذمہ داریوں کو اچھے انداز سے نبھانا ہے۔ میکا تو صرف درسگاہ ہے ،جو آپ کو رشتوں اور ذمہ داریوں کو نبھانے کا سلیقہ سکھاتا ہے ۔ ساس اور سسر آپ کے حقیقی والدین ہیں۔ دیور اور نندیں آپ کے حقیقی بھائی ہیں۔ جس طرح میکے میں سب مل کر آپ کو خوش رکھنے کی کوشش کرتے تھے اور آپ کی خواہش کا احترام کرتے تھے اسی طرح اب باری آپ کی ہے سسرال میں آپ نے سب کو خوشی دینی ہے سب کی خواہشوں کے ساتھ ساتھ جذبات کا بھی احترام کرنا ہے اور یہ سب آپ کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔

اوّل آپ کو ہر ایک رشتے کو میکے میں جوڑ کر دیکھنا چاہیے ۔دوم اپنی ذمہ داریوں کو بخوبی سمجھنا ہے کشادہ دل رکھ کر ہر وقت قربانی کے جذبے سے سرشار رہنا ہے۔ اپنے اندر کے باغیانہ جذبات پر قابو رکھنا ہے۔ زبان کو ہرحال میں شیریں رکھنا ہے۔ سب کی منشاء اور امیدوں سے ایک قدم آگے چلنا ہے ۔ پھر دیکھئے سسرال کا ہر ایک فرد آپ کی دل سے عزت و احترام کرنے لگے گا۔ اور جہاں دو انسانوں کے درمیان عزت واحترام کا پل تعمیر ہو جائے وہاں تمام مشکلیں آسان ہو جاتی ہے ۔ خوشیاں درکی غلام بن جاتی ہیں ،نیک نامی سایہ فگن رہتی ہے۔ ازدواجی زندگی خوشگوار ہو جاتی ہے ۔آپ کی نیک نامی کے سبب آپ کی اولاد دنیا کے ہر میدان میں کامران رہتی ہے۔ آپ کا بڑھاپا محفوظ اور پرسکون ہو جاتا ہے یعنی آپ کی زندگی کامیاب ہو جاتی ہے اور گھر جنت کا نمونہ بن جاتا ہے۔

والدین بھی اس بات کا خیال رکھیں کہ لڑکی ہمیشہ پرائی ہوتی ہے ۔اس لیے اس کی تربیت میں کوئی کمی نہ برتیں۔ بعض اوقات جب لڑکی بیاہ کر سسرال جاتی ہے تو نہ اسے سسرال کے طور پر طریقوں کا پتہ ہوتا ہے اور نہ ہی شوہر کی پسند نا پسند کا۔ ایسے حالات میں لڑکی سے بہت سی غلطیاں ہو جاتی ہیں ۔جو گھریلو جھگڑوں کا سبب بنتی ہیں ۔اس لیے یہ والدین کا فرض ہے کہ وہ اپنی بچیوں کو اچھی تربیت دیں اور پہلے سے سسرال کے طور طریقوں اور سسرال میں اٹھنے بیٹھنے کا سلیقہ سکھائیں تو بہت سی مشکلیں آسان ہو جاتی ہیں ۔ساتھ ہی اپنی بچیوں کو یہ تعلیم ضرور دیں کہ وہ اپنی ساس سسر کو اپنے والدین کا درجہ دیں۔

بیشتر گھرانوں میں ازدواجی زندگی کے مسائل کی شروعات انہیں مسئلوں کی بناء پر ہوتی ہے۔ کہتے ہیں کہ تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے ہم ان سسرالیوں سے بھی یہی بات کہیں گے کہ وہ اپنی بہوئوں کو اپنی بیٹیاں جانیں ،انہیں نئے ماحول میں رچنے بسنے کی مہلت دیں۔ انہیں وہ محبت و شفقت عطا کریں جو وہ اپنی بچیوں کے لیے پسند کرتے ہیں ۔اکثر گھروں میں جھگڑے کا سبب دوسروں کی باتوں پر کان دھرنے سے بھی ہوتا ہے ۔جو عام طور پر ساس بہو کے معاملے میں زیادہ کارگر ہوتا ہے۔ اور یہ اس وجہ سے ہوتا ہے کہ دونوں ہی کچے کان کی ہوتی ہیں ۔اس لیے دونوں اس بات کو اپنی گرہ میں اچھی طرح باندھ لیں کہ کسی بھی معاملے میں ایک دوسرے سے بدظن ہونے سے پہلے معاملے کو سمجھیں اور غیروں کی باتوں پر آنکھیں موند کر یقین کرنے سے پہلے آپس میں ایک دوسرے کی غلط فہمی کو دور کر لیں تو زندگی آسان ہو جائے گی۔