خونیں برسات کی تباہ کاریاں

ملک میں روا ں برسات خونیں ثابت ہوا۔ بارشوں نے ملک کے طول وعرض میں ایسی تباہی پھیلادی ہے کہ جس کے زخم آسانی سے بھرنے نہیں پائیں گے ۔سب سے زیادہ نقصان پسماندہ صوبہ بلوچستان میں ہوا جہاں پہلے ہی ریلیف اور ریسکیو کا نظام کمزور اور ریاست کی گرفت کمزور ہے ۔بلوچستان کے دوردراز علاقوں تک پہنچنے کے لئے جو وسائل اور انفراسٹرکچر کی ضرورت ہوتی ہے ریاست اسے پورا کرنے سے قاصر رہی ہے ۔افواج پاکستان جاں جوکھوں میں ڈال کر ہر آفت میں ریلیف اور ریکسیو کا کام کرتے ہیں مگر جغرافیائی اعتبار سے صوبہ جس قدر بڑا ہے اور اس کے دیہات جس قدر دوردراز ہیں ان میں سوفیصد نتائج دکھانا ممکن نہیں ہوتا ۔یہی وجہ کہ بلوچستان میں نظر انداز ہونے کا احساس کا مستقل احساسِ محرومی میں ڈھل چکا ہے ۔کوئٹہ سمیت بلوچستان کے مختلف اضلاع میں بارش اور سیلاب سے جاں بحق افراد کی تعداد ایک سو بتیس تک پہنچ گئی ہے جبکہ سیکڑوں مکان تباہ ہو چکے ہیں ۔ریلوے ٹریک کو نقصان پہنچنے کے باعث پاک ایران مال بردار ٹرین سروس معطل ہو چکی ہے قومی شاہراہ کو نقصان پہنچنے کے باعث بلوچستان سے کراچی جانے والے پھل اور سبزیوں کی ترسیل معطل ہو کر رہ گئی ہے ۔بلوچستان میں ہونے والی تباہی میں ایک غمناک موڑ اس وقت آیا جب امدادی کاروائیوں کی نگرانی کرتے ہوئے کورکمانڈر بلوچستان لیفٹیننٹ جنرل سرفراز علی کا ہیلی کاپٹر لاپتا ہوگیا اور آخر کار ہیلی کاپٹر کے حادثے کا شکار ہونا یقینی ٹھہرا ۔یوں عوام کی قربانیوں میں فوج کی بڑی قربانی بھی شامل ہوگئی ۔سٹیٹ ڈیزاسٹر مینجمنٹ نے جانی ومالی نقصان کی رپورٹ جاری کی ہے ۔لینڈ سلائیڈز نے سڑکوں اور انفراسٹرکچر کو تباہ کر دیا ہے ۔ملک کے بالائی علاقوں میں سیکڑوں سیاح پھنس کر رہ گئے ہیں ۔متعلقہ انتظامیہ نے کامیاب آپریشن کرکے سیاحوں کو بحفاظت نکالا ہے ۔ملک کے مختلف حصوں کے عوام کے درمیان زمینی رابطہ کٹ کر رہ گیا ہے ۔بلوچستان کی ایک دلدوز تصویر نے ترکی کے ساحل پر پڑے شامی بچے ایلان کردی کی یاد تازہ کی ہے جس میں ایک بچے کی لاش کیچڑ میں لت پت پڑی ہے ۔ایک اور تصویر میں بوڑھا شخص اپنے باقی اہل خانہ کے ساتھ کشتی میں بیٹھا چلا رہا ہے ۔یہ تصویر ”بلوچستان ڈوب رہاہے ” کے ہیش ٹیگ کے ساتھ ٹویٹر پر ٹاپ ٹرینڈرہی۔ بلوچستان حکومت نے ان تصاویر کوپرانی قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ ان تصویروں کو وائرل کرنے کا مقصد سیلاب سے متاثر ہ افراد کو ریسکیو کرنے اور امدادی سرگرمیوں کے لئے صوبائی حکومت اور اس کے اداروں کی دن رات کاوشوں کو ناکام بنانا ہے ۔معاملہ کچھ بھی ہو فیک نیوز کا زمانہ ہے اور یہاں اس طرح کی باتیں ہونا عام ہے ۔شاید اس طرح کی سنسنی خیز خبریں او ر تصویریں پھیلانے والوں کا مقصد حالات کی سنگینی کر بڑھا کر پیش کرنا ہوتا ہے کیونکہ ہماراسسٹم جس طرح ناکارہ اور سستی کا شکار ہو چکا ہے اس میں کوئی سنگین واقعہ ہی اسے متحرک کرنے کا باعث اور محرک ثابت ہوسکتا ہے ۔حکومتیں بھی ایسے ہی واقعات کا نوٹس لیتی ہیں جن میں تباہی زیادہ ہو اور اس معاملے میں تساہل برتنے سے حکومت کو اپنی بدنامی کا ڈر ہو۔اس لئے کچھ منچلے حالات کو گھمبیر اور سنگین بنانے کے لئے پرانی تصویروں کا سہارا لیتے ہیں ۔وائرل ہونے والی ایک دو تصاویر اگر پرانی بھی ہیں تو اس سے یہ حقیقت تبدیل نہیں ہو سکتی کہ بارشوں نے تباہی مچائی ہے اور بلوچستان سمیت ملک کے مختلف حصوں میں دلدوز واقعات سامنے آئے ہیں ۔بلوچستان سے پہلے کراچی میں سیلاب کی تباہ کاری کے جو مناظر سامنے آئے تھے وہ حکومت کی رٹ کے کمزور تر ہونے کا واضح ثبوت تھا ۔گلی کوچوں میں لوگ کشتیوں میں سفر کرنے پر مجبور تھے ۔شاہراہیں گندے نالوں اور جوہڑوں کا منظر پیش کررہی تھیں۔موسمی تبدیلی عالمگیر سطح پرایک مسئلہ ہے مگر پاکستان کے لئے یہ ایک شدید خطرے سے کم نہیں ۔عالمی ماہرین پاکستان میں درجہ حرارت بڑھ جانے کی پیش گوئی کر چکے ہیں۔درجہ حرارت بڑھنے سے گلیشئر پگھلنے اور سیلاب آنے کے خدشات بھی دوسرے علاقوں کی نسبت زیادہ ہیں ۔سیلابوں کے حوالے سے پاکستان کا نمبر آٹھواں ہے ۔کلائمیٹ رسک کنٹری پروفائل کے مطابق پاکستان کو دنیا میں سب سے زیادہ آفات کا سامنا ہے اور 191ممالک میں رسک کے حساب سے پاکستان کا نمبر اٹھارہواں ہے ۔ان موسمیاتی تبدیلوں کا ایک نتیجہ قحط اور معاشی تباہی کی صورت میں بھی برآمد ہوسکتا ہے ۔گویا کہ پاکستان کی ریاست جن خطرات کا سامنا کر رہی ہے اس میں ایک بڑا خطرہ قدرتی ہے ۔اس خطرے کا مقابلہ ایٹم بم اور جدید ہتھیاروں سے ممکن نہیں ۔اس کے لئے ذہن اخلاص اور منصوبہ بندی کے ہتھیار درکار ہیں ۔سچ تو یہ ہے فی الحال ریاست اور اسے چلانے والوں نے خود کو ان ہتھیاروں سے لیس کرنے کی طرف کوئی توجہ نہیں دی ۔اسی کا نتیجہ ہے کہ یہاں ہر تباہی کا حجم اور اثر دنیا بھر کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے۔

مزید پڑھیں:  عسکریت پسندوں سے مذاکرات؟