ماحولیاتی تبدیلی کی صورتحال

ماحولیاتی آلودگی کی تشویش آج سے دو دہائی قبل صرف فیشن کا حصہ سمجھی جاتی تھی جو بھی خود کو ذرا زیادہ پڑھا لکھا یا ماڈرن ثابت کرنا چاہتا وہ ماحولیاتی آلودگی کے حوالے سے متفکر دکھائی دینے کی کوشش کرتا لیکن اب ایسا نہیں ہے یہ موضوع سخن اب حقیقت ہے اور وہ بھی ایک انتہائی پریشان کن ‘ ایک تباہی کی جانب اشارہ کرنے والی حقیقت گو کہ اب بھی پاکستان ایسے ملکوں میں جہاں غربت اس سے بھی زیادہ جاں لیوا ہے ‘ ماحولیاتی آلودگی اور بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کے بارے میں سوچنا لوگوں کواب بھی تعیشیات میں سے لگتا ہے ۔ حقیقت یہ بھی ہے کہ یہی غریب ترین ملک اس ماحولیاتی آلودگی کے نقصانات کو سب سے زیادہ وصول کرنے والے اور ان سے نبرد آزما ہونے والے ہیں اور کسی طور بھی ان کے معاملات میں کسی طرح کی آسانی جنم نہیں لیتی ۔ کمال کی بات یہ ہے کہ وہ ملک جوبنیادی طور پراس آلودگی کے ذمہ دار ہیں ‘ انہیں ان نقصانات کا ابتدائی حصہ پہنچے گا بھی نہیں۔ یہ ملک ماحولیاتی آلودگی اور اس کے بد اثرات سے بہت بعد میں متاثر ہونگے جبکہ غریب ملکوں میں اس سے کہیں پہلے بہت تباہی پھیل چکی ہو گی۔ پاکستان ‘ ویت نام ‘ بنگلہ دیش ‘ سری لنکا ‘ نیپال جیسے بہت سے ممالک ایسے ہیں جو ماحولیاتی آلودگی میں ایک فیصد سے بھی کم کے حصہ دار ہیں لیکن نقصانات وصول کرنے میں ‘ دس شدید ترین تباہی کاشکار ہونے والے ملکوں میں شامل ہونگے کیونکہ ماحولیاتی آلودگی کے زیر اثر بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کوہ قراقرم اور کوہ ہمالیہ میں موجود گلیشئرز کے پگھلنے کا سبب بنیں گے ان گلیشئر کے پگھلنے سے سیلاب اور طوفانی بارشیں ہونگی ‘ سمندروں کی سطح آب میں ا ضافہ ہو گا’ سیلابوں سے میدانوں کی زرخیز مٹی بھی بہہ جائے گی جس سے زرعی پیداوار بری طرح متاثر ہو گی ۔ ساحل سمندر یا پانی کے کنارے آباد بستیاں بھی تباہ ہو جائینگی اور پھرقحط سالی کا آغاز ہوگا جس سے یہ ملک تباہ ہوجائیں گے ۔
یہ تصویر انتہائی بھیانک ہے اور اس کی خوفناکی میں سب سے زیادہ دکھ دینے والی بات یہ ہے کہ اس سب میں ان ملکوں کا کوئی بہت زیادہ کردار نہیں۔ ملک میں ماحولیاتی آلودگی میں اضافہ کرنے میں سب سے بڑا کردار چین کا ہے جو اس ماحولیاتی آلودگی میں ایسے سنگین اضافے کا 20فیصد سے زیادہ حصہ دار ہے ۔ اس کے بعد امریکہ کا نمبر آتا ہے جو قریباً 12سے 13فیصد کا اضافہ کرتا ہے ۔ اس کے بعد بھارت کا نمبر ہے جو کم از کم بھی سات فیصد کا حصہ دار ہے ۔ یہ وہ واحد ملک ہے جواس ماحولیاتی آلودگی میں اضابہ بھی خوب کر رہا ہے اور اس کے بد اثرات کا شکار ہونے والے ملکوں میں بھی پہلی فہرست میں شامل ہوگا۔ اس کے بعد یورپی یونین کا نمبر ہے جو ماحولیاتی آلودگی میں قریباً 6.4فیصد کا حصہ دار ہے ۔
2015ء کے پیرس معاہدے میں جہاں اور باتوں کی جانب توجہ دی گئی وہاں دنیا کے 196ملکوں نے اس بات پر بھی اکتفا کیا کہ ماحولیاتی آلودگی میں کمی کے لئے مل کر کوششیں کی جائیں۔ تاکہ دنیا کے درجہ حرارت میں کمی لانے کی کوششیں کی جائے ۔ ترقی یافتہ ممالک ‘ ترقی پذیر ممالک کا ہاتھ تھامنے کی کوششیں کریں اور ہرسال قریباً 200بلین ڈالر کے قریب ‘ ترقی یافتہ ممالک اقوام متحدہ کے ماحولیاتی بچائو پروگرام کے تحت ان ملکوں میں مختلف اقدامات پر صرف کریں۔اگرچہ اس طرح کی باتیں زبانی جمع خرچ سے زیادہ نہیں بڑھتی لیکن بہرحال اس حوالے سے کام ہوتا رہا کیونکہ یہ صورتحال دن بہ دن خطرناک ہوتی چلی جارہی ہے ۔ اس صورتحال میں سب سے زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ وہ پانچ گیس جنہیں گرین ہائوس گیسیں سمجھا جاتا ہے ‘ یعنی ان گیسوں کی ماحول میں موجودگی سے دنیا کا ایک عمومی درجہ حرارت بلند ہو رہا ہے اور ان گیسوں کے اخراج کے حوالے سے اقدامات ہی دنیا میں اس شدید ترین نقصان سے محفوظ رکھ سکتے ہیں ان میں سب سے زیادہ کام کاربن ڈائی آکسائیڈ کے حوالے سے ہو رہا ہے ۔ سب ملک جب پیرس معاہدے کے تحت اپنے اپنے حصے کے اقدامات کا اعادہ کرتے ہیں تو کاربن اخراج کے حوالے سے اپنے اقدامات کی یقین دہانی ضرور کرواتے ہیں۔ لیکن اس صورتحال میں ایک انتہائی پریشان کن امر یہ ہے کہ وہ گیسیں جو اس صورتحال کا باعث ہیں ‘ کاربن ڈائی آکسائیڈ کی فضامیں موجود رہنے کی عمر اور فضا میں گرمی پیدا کرنے کا تناسب سب سے کم ہے ۔ یہ قریباً ایک سال تک فضا میںموجود رہتی ہے جبکہ اس کے مقابلے میں میتھین کا فضا میں موجود رہنے کی عمر بارہ سال ہے اور گرمی پیدا کرنے کا تناسب 72فیصد ہے ۔ نائٹرس آکسائیڈ فضا میں 114 سال تک موجود رہ سکتی ہے اور اس کا گرمی پیدا کرنے کا تناسب کاربن ڈالی آکسائیڈ کے مقابلے میں 310 فیصد ہے اسی طرح دوگیسیں جو صرف انسان کی مختلف ایجادات کے نتیجے میں پیدا ہو رہی ہیں جس میں سی ایف سی 12ہے جو کہ اے سی ‘ فریج ‘ فوم بنانے میں استعمال ہوتی ہے فضا میں 270سال رہ سکتی ہے اور فضا میں اس کا گرمی پیدا کرنے کاتناسب 12000 فیصد زیادہ ہے ۔ بجلی کی ٹرانسمیشن لائنوں وغیرہ کے ذریعے بجلی کی ترسیل سے سلفر ہپکسا فلورائیڈ پیدا ہوتی ہے جو کہ فضا میں 3200 سال موجود رہتی ہے اور اس کا گرمی پیدا کرنے کا تناسب 16300 فیصد ہے ۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ممالک کاربن اخراج کو روکنے کے لئے جوبھی اقدامات کر لیں جب تک ان کے حوالے سے کام نہیں ہوگا صورتحال میں بہتری ہونا ناممکن ہے ۔
سوچ ہے کہ الجھتی جاتی ہے کہ اتنی بڑی تباہی جس کے آثار واضح بھی ہونا شروع ہو گئے اور جس کے لئے ظاہر اقدامات کا آغاز بھی ہوگیا دراصل اس کے سدباب کے لئے کوئی سنجیدہ نہیں ‘ جہاں تباہی کا آغاز ہونا ہے ان کی شنوائی کہیں نہیں اور جہاں تک تباہی آخر میں پہنچتی ہے انہیں پرواہ نہیں۔ ایسے میں کوئی کیا کرے وہ بات جس کا فسانے میں کہیں ذکر ہی نہیں پریشانی کی بات ہی وہی ہے اور اس کا سدباب ہی کوئی نہیں کررہا ۔ سمجھ نہیں آتی کہ ماجرا کیا ہے؟۔

مزید پڑھیں:  دہشت گردی میں اضافہ